تشریح:
1۔ امام بخاری ؒنے خود وضاحت کی ہے کہ قدوم دال کی تشدید کے ساتھ ایک جگہ کا نام ہے۔ (صحیح البخاري، الاستئذان، حدیث:6298) البتہ صحیح مسلم کی تمام روایات میں یہ لفظ تخفیف کے ساتھ مروی ہے۔(صحیح مسلم، الفضائل، حدیث:6141(2370) جس کے معنی ہیں: بسولا۔ ان دونوں روایات میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ ممکن ہے حضرت ابراہیم ؑ اس حکم کے وقت مقام قدوم میں ہوں اور وہیں آپ نے بسولے کے ساتھ تعمیل حکم کی ہو۔ 2۔ مقام غور ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ اسی برس کے ہیں، اوراپنے گھر میں نہیں بلکہ کسی دوسرے مقام پر اپنا ختنہ کرنے کا انھیں حکم ملتا ہے، پھر ختنہ کے لیے وہاں کوئی استرا وغیرہ موجود نہیں، تعمیل حکم کے لیے بسولے کے ساتھ خود ہی نازک عضو کے کچھ حصے کو کاٹ دیتے ہیں جس کی ٹیس دیر تک محسوس ہوتی رہتی ہے۔ لیکن منکرین حدیث اس کا مذاق اڑاتے ہیں کہ اس میں تعجب کی کیا بات ہے؟ جب انسان خود کشی کرسکتا ہے خود اپنے ہاتھ سے اپنی گردن کاٹ سکتا ہے تو حضرت ابراہیم ؑ نے اگر اس عمر میں ختنہ کرلیا تو کون سی عزیمت ہے؟ بہرحال حضرت ابراہیم ؑ کے اس عمل کو خود کشی سے تشبیہ دینا حماقت سے کم نہیں۔ ایک روایت میں ہے:ختنہ کرنے سے جب حضرت ابراہیم ؑ کو تکلیف ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے وحی بھیجی کہ آپ نے جلدی کی ہے۔ عرض کی:الٰہی! تیرے حکم میں تاخیر کرنا مجھے گوارا نہ تھا، اس لیے تعمیل حکم میں جلدی کی ہے۔ (السنن الکبری للبیهقي:326/8)