تشریح:
1۔ رسول اللہ ﷺ کا اشارہ اس آیت کریمہ کی طرف تھا۔ ’’لوط نے کہا: کاش! میں تمھارا مقابلہ اپنی قوت بازو سے کر سکتا یا کسی مضبوط سہارے کی طرف پناہ لے سکتا‘‘ (ھود:80/11)جیسا کہ پہلے بیان ہوا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے انھیں علاقہ سدوم کی طرف دعوت و تبلیغ کے لیے روانہ کیا۔ وہاں آپ غریب الدیار تھے کیونکہ یہ بستی شام علاقے میں تھی اور آپ عراق کے رہائشی تھے نیز وہاں ان کے خاندان کاکوئی فرد نہ تھا صرف ایک بیوی وہ بھی در پردہ قوم کے ساتھ تھی اور حضرت لوط ؑ سے انتہائی بے وفا تھی۔ جب قوم لوط ؑ کے مہمانوں کے ساتھ بدتمیزی کرنے پر اتر آئی تو انھوں نے کہا: کاش!میرے پاس ذاتی قوت ہوتی یا میرا یہاں کوئی خاندان یا قبیلہ ہوتا جو آج میری عزت کا دفاع کرتا۔ اس کے بعد جتنے بھی نبی مبعوث ہوئے ہیں وہ بڑے جتھے اور قبیلے والےتھے۔ غالباً قوم شعیب نے خاندانی اثر و رسوخ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا۔ ’’اگر تمھاری برادری نہ ہوتی تو ہم تمھیں سنگسار کر دیتے۔‘‘ (ھود:91/11) 2۔ امام نووی ؒ فرماتے ہیں: ’’جب حضرت لوط ؑ اپنے مہمانوں کا حال دیکھ کر گھبرائے تو اس وقت فرمایا وہ کسی مضبوط سہارے کی پناہ لینا چاہتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ انھوں نے در پردہ اللہ کی پناہ ہی حاصل کی ہو لیکن معذرت خواہی کے طور پر مہمانوں کے سامنے یہ کلام ظاہر کیا ہو۔ اس کے بعد فرشتے بھی خاموش نہ رہ سکے اور کہنے لگے۔ آپ اتنے پریشان نہ ہوں ہم لڑکے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں۔ یہ لوگ ہمیں چھیڑنا تو درکنار تمھارا بھی کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔ جب رات کا کچھ حصہ گزر جائے تو آپ اپنے گھر والوں کو لے کر اس بستی سے نکل جائیں اور تم میں سے کوئی بھی پیچھے مڑ کر نہ دیکھے البتہ تمھاری بیوی پر وہی کچھ گزر نا ہے جو ان پر گزرے گا ان پر عذاب کے لیے صبح کا وقت مقرر ہو چکا ہے چنانچہ پھر انھیں صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا۔‘‘