تشریح:
قرآن کریم نے اس اونٹنی کے قتل کا واقعہ ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔ ﴿كَذَّبَتْ ثَمُودُ بِطَغْوَاهَا (11) إِذِ انبَعَثَ أَشْقَاهَا (12) فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ نَاقَةَ اللَّهِ وَسُقْيَاهَا (13) فَكَذَّبُوهُ فَعَقَرُوهَا فَدَمْدَمَ عَلَيْهِمْ رَبُّهُم بِذَنبِهِمْ فَسَوَّاهَا﴾ ’’(قوم)ثمود نے اپنی سر کشی کی وجہ سے جھٹلادیا۔ جب اس قوم کا سب سے بڑا بد بخت اٹھ کھڑا ہوا تو ان سے اللہ کے رسول (صالح)نے کہا اللہ کی اونٹنی اور اس کے پینے کی باری کا خیال رکھو۔ انھوں نے اس (رسول) کو جھٹلایا اور اونٹنی کو مار ڈالاتو ان کے رب نے ان کے گناہ کی وجہ سے انھیں پیس کر ہلاک کردیا پھر اس (بستی)کو برابر یعنی ملیامیٹ کردیا۔‘‘ (الشمس11-13) روایات میں اس کا نام قدار بن سالف بتایا گیا ہے جو بڑا شریر اور مضبوط جسم والا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے عزت و قوت میں اسے ابو زمعہ جیسا قراردیا ہے جس کا نام اسود بن مطلب تھا جو اپنی قوم میں رسہ گیر تھا اور رسول اللہ ﷺ کا مذاق اڑانے والے ان لوگوں میں سےتھا جن کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ﴾ ’’قیناًآپ کی طرف سے ہم مذاق کرنے والوں کو کافی ہیں۔‘‘ (الحجر:95/15) حضرت جبرئیل ؑ نے اپنا پر مار کر اسے اندھا کردیا تھا۔ (عمدة القاري:11/97۔98)