تشریح:
1۔ سیاست کے معنی کسی چیز کی اصلاح کرنے کے ہیں۔ بنی اسرائیل کی اصلاح حضرات انبیاء ؑ کرتے تھے۔ جب ان میں کوئی فتنہ وفساد رونما ہوتا تو اللہ تعالیٰ اسے دورکرنے کے لیے کسی نبی کابندوبست کردیتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا جو پہلے انبیاء علیہ السلام جیسا فریضہ ادا کرے،البتہ میرے خلفاء بکثرت ہوں گے۔ان کی اطاعت کرانا امت پر واجب ہے۔‘‘ 2۔ اس عالم رنگ وبو میں مسلمانوں کے بیک وقت دو خلیفے نہیں ہوسکتے، جب ایک خلیفے کی خلافت شرعی طریقے سے منعقد ہوجائے تو وفاداری اور جاں نثاری اسی سے وابستہ کی جائے، اس کی موجودگی میں اگر کوئی دوسرا خلیفہ بن بیٹھے تو اس کی گردن اڑادینے کا حکم ہے۔صحیح مسلم میں ہے کہ جب دوخلیفوں کی بیعت کی جائے تو دوسرے کو قتل کردیاجائے۔ (صحیح مسلم، الإمارة، حدیث:4799(1853) افسوس کہ اقتدار کی بندر بانٹ نے مسلمانوں کو تقسیم کردیا ہے۔ مغربی جمہوریت نے مسلمانوں کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے ہیں۔ مسلم ممالک اسی طوائف الملوکی کی پیداوار ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں جمہوریت کے نتیجے میں اسمبلیاں قائم ہوتی ہیں وہ دراصل مچھلی بازار کا نمونہ ہیں۔ پھر ممبران اسمبلی کی قیمت لگتی ہے۔ اس کےبعد کاروائی کے دوران میں گالی گلوچ اور بازاری زبان استعمال کی جاتی ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف آوازے کسے جاتے ہیں۔ جوتے اور کرسیاں چلتی ہیں۔ بالآخر اسمبلی کی کاروائی سے غیر پارلیمانی جملے حذف کرنا پڑتے ہیں۔ اسلام اور تقسیم درتقسیم کی اجازت نہیں دیتا۔ واللہ المستعان۔ 3۔ اس حدیث میں خلفاء کی اطاعت کے ساتھ ساتھ ان کی ذمے داریوں سے بھی آگاہ کیا گیا ہے۔ اگروہ اپنے ذمے داری ادا نہیں کریں گے تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی عدالت میں سخت ترین رسوائی کا سامنا کرنا ہوگا۔ آج نام نہاد جمہوری دور میں کرسیوں پر براجمان ہونے والوں کے لیے بھی یہی حکم ہے کہ وہ اپنے ذمے داریوں کا احساس کریں مگر کتنے کرسی نشین ہیں جو اقتدار میں آنے کے بعد اپنی ذمے داریوں کے متعلق سوچتے ہیں؟ انھیں جب ووٹ لینے ہوتے ہیں تو اس وقت کچھ یاد آتا ہے، غریبوں سے ہمدردی کا درداٹھتا ہے، بعد میں سب بھول جاتے ہیں۔ إِناللہ وإنا إلیه راجعون۔