تشریح:
1۔ لفظ محدث دال کے فتحہ کے ساتھ ہے۔ شارحین نے اس کے مختلف معانی بیان کیے ہیں۔ (ا)جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی اچھی چیز ڈال دی جائے گویا وہ جو گمان کرتا ہے درست ہوتا ہے اور اس کے دل میں کوئی بات آتی ہے تو نفس الامر کے مطابق ہوتی ہے۔ (ب)جس کی زبان پر حق جاری ہو جائے۔ (ج)جو اپنی فراست سے کسی بات کی تہ تک پہنچ جائے۔ یہ تمام معانی مدعا اور مقصد کے اعتبار سے قریب قریب ہیں۔ حضرت عمر ؓ کو ان تمام باتوں میں کامل درجہ حاصل تھا۔ کئی باتوں میں ان کی رائے کے مطابق اللہ کی طرف سے وحی نازل ہوئی۔ 2۔ حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ کی امت تمام امتوں سے افضل ہے۔ جب دوسری امتوں میں محدث ہوتے تھے تو آپ کی امت میں بطریق اولیٰ ہونے چاہئیں۔ رسول اللہ ﷺ نے توقع کے طور پرفرمایا گویا اپ ابھی اس پر مطلع نہیں ہوئے تھے چنانچہ آپ کی توقع کے مطابق ایسا ہی ہوا اور حضرت عمر ؓ اس معیار اور توقع پر پورے اترے۔ (فتح الباري:632/6)