تشریح:
1۔ صحیح بخاری ؒ کے متعدد نسخوں میں یہاں لفظ باب نہیں ہے۔ چنانچہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ لکھتے ہیں کہ اکثر صحیح نسخوں میں لفظ باب نہیں ہے اور ایسا ہی صحیح معلوم ہو تا ہے، اس بنا پر حدیث کی مناسبت باب سابق سے بایں طور ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس شخص کے حق میں فرمایا کہ تو مٹی کو استعمال کر لیتا وہ تیرے لیے کافی تھی۔ جس طرح یہ جملہ مٹی کی تمام انواع کے لیے عام ہے، اسی طرح اس کا عموم تیمم کی کیفیت کے لحاظ سے بھی ہے کہ وہ ایک ضرب کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے اور دو کے ساتھ بھی (شرح تراجم بخاري) لیکن یہ توجیہ امام بخاری ؒ کے عنوان کے خلاف ہے، حافظ ابن حجرؒ لکھتے ہیں کہ اگر اسے باب سابق کا تتمہ خیال کیا جائے تو وہ بایں طورہے کہ اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے اسے مطلق طور پر مٹی استعمال کرنے کے متعلق فرمایا ہے اور مطلق کا کم ازکم فرد کامل ایک ہوتا ہے، اس سے امام بخاری نے اپنا مدعا ثابت کیا ہے۔ (فتح الباری:593/1) 2۔ امام بخاری ؒ کا باب بلا عنوان کئی ایک اغراض کے پیش نظر ہوتا ہے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ اسے پہلے عنوان ہی کی فصل شمار کہا جائے۔ چنانچہ حدیث مذکور میں کسی عدد کا ذکر نہیں ہے، اس لیے ایک بار ہاتھ مار کر مسح کر لینا بھی کافی ہے۔وھوالمقصود باب بلا عنوان کا ایک مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ اس سے طلباء کا امتحان اور تشخید اذہان (ذہنی آزمائش ) مراد ہو، یعنی قارئین خود اس حدیث پر کوئی عنوان قائم کریں، چنانچہ اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا جا سکتا ہے: (باب الجنب إذا لم يجد الماء تيمم وصلى) یعنی جنبی آدمی کو اگر پانی نہ ملے تو وہ تیمم کرے اور نماز پڑھے۔ 3۔ بعض شارحین نے اس مقام پر ایک عجیب نکتہ بیان کیا ہے، وہ اس طرح کہ امام بخاری ؒ اس حدیث سے ایک اشکال کا جواب دینا چاہتے ہیں، اشکال یہ ہے کہ اگر حضرت عمار ؓ کو آیت تیمم معلوم تھی تو وہ زمین پر لوٹ پوٹ کیوں ہوئے اور اگر معلوم نہ تھی تو انھیں کیسے معلوم ہوا کہ مٹی پانی کے قائم مقام ہے؟ امام بخاریؒ نے اس کا جواب اس طرح دیا کہ حضرت عمار نے رسول اللہ ﷺ سے صرف (عَلَيْكَ بِالصَّعِيدِ) سن رکھا تھا کہ:’’ تجھے مٹی استعمال کرنی چاہیے۔‘‘ اس بنا پر انھوں نے اس کے عموم کو دیکھتے ہوئے تیمم کو غسل پر قیاس کیا اور زمین پر لوٹ پوٹ ہوئے رسول اللہ ﷺ نے ان کی اصلاح فرما دی۔ 4۔حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں امام بخاری ؒ ہر کتاب کے آخر میں کوئی ایسی روایت لاتے ہیں جس کے کسی لفظ سے انتہائے کتاب کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔ چنانچہ یہاں لفظ (يَكْفِيكَ) ہے، یعنی تیمم کے متعلق تجھے اتنا ہی کافی ہے۔ (فتح الباری:593/1) 5۔ واعظین حضرات کا کہنا ہے کہ امام بخاریؒ کتاب کے آخر میں کوئی ایسا لفظ لاتے ہیں جس سے انسان کے خاتمے اور فکر آخرت کی طرف واضح اشارہ ہوتا ہے۔ اس مقام پر بھی امام بخاری نے(عَلَيْكَ بِالصَّعِيدِ) کے لفظ سے موت یاد دلائی ہے، یعنی خود پر مٹی کو لازم کر لو۔ اس سے قبر کی طرف بھی اشارہ ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَىٰ﴾ ’’اسی سے ہم نے تمھیں پیدا کیا اور اسی میں تمھیں لوٹائیں گے اور اسی سے تمھیں دوبارہ نکالیں گے۔‘‘ (طٰہ:20۔55) واللہ أعلم وعلمه أتم۔