تشریح:
1۔ عربوں کے ہاں خاندانی تقسیم اس طرح ہے کہ پہلے جذم، پھر شعب اس کے بعد قبیلہ اس کے بعد عمارہ وغیرہ ہے۔ جذم کی مثال عدنان، شعب کی مضر، قبیلے کی کنانہ اور عمارہ کی قریش ہے۔ ہمارے برصغیر میں جٹ ایک قوم یا ذات ہے جسے عربی میں شعب کہتے ہیں جس کی جمع شعوب ہے اور پھر اس کی آگے برادریاں اور خاندان ہیں جیسے کھوکر، چیمہ، چٹھہ یا سندھو وغیرہ۔ اسے یوں تعبیر کیا جاتا ہے کہ کھوکر جٹ، چیمہ جٹ، چھٹہ جٹ، اور سندھو جٹ وغیرہ۔ یہ محض پہچان اور تعارف کے لیے ہیں، مثلاً:دوشخصوں کے نام زید اور ان کی ولدیت بکر ہے تو الگ الگ قوم، قبیلہ یا برادری اور خاندان کی بنا پر ان میں امتیاز ہوسکتا ہے لیکن ہم نے یہ ظلم ڈھایا ہے کہ اس قوم اورقبیلے کے بت کو باہمی فخر اور آپس میں نفرت کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ کسی کی قومیت پر ناز ہے۔کوئی رنگ اورنسل پر فخر کرتا ہے اور کوئی سید، فاروقی اورصدیقی ہونے کو وجہ عزت قراردیتاہے۔ 2۔دورحاضر میں قوم، وطن، نسل، رنگ اور زبان یہ پانچ بت ہیں جن کی پوجا کی جاتی ہے اور ان کو بنیاد بنا کر پوری انسانیت کو کئی گروہوں میں تقسیم کردیا گیا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے ان سب چیزوں کے بجائے عزت وشرف کا میعار صرف تقویٰ کو قراردیا ہے۔ اس بنا پر متقی آدمی اگر خاندانی اعتبار سے پست ہے لیکن اس غیر متقی خاندانی انسان سے اللہ کے ہاں زیادہ محترم ومکرم ہے۔ 3۔علمائے تفسیر نے اس آیت کی وضاحت کرتے ہوئے یہ بھی لکھا ہے:نسب کی حفاظت کا اہتمام امر مطلوب ہے کیونکہ اس کے ذریعے سے باہمی تعارف ہوتا ہے، صلہ رحمی کا جذبہ جنم لیتا ہے، آپس میں وراثت تقسیم ہوتی ہے اور رشتے داریاں قائم ہوتی ہیں لیکن حسب ونسب اور خاندان و قبیلے کا غرور اور فخردور جاہلیت کی یاد گار ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر پاش پاش کیا تھا۔ آپ نے فرمایا:’’کسی گورے کو کالے پر اور کسی کالے کو گورے پر ،کسی عربی کوعجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں۔فضیلت کی بنیاد صرف تقویٰ ہے کیونکہ تم سب آدم کی اولاد ہو اور حضرت آدم علیہ السلام کومٹی سے پیدا کیا گیا۔(جس کی حیثیت تم سب کے لیے برابر ہے)۔‘‘ (مسندأحمد :411/5)