باب: شب قدر کی بیداری (اور عبادت گزاری) بھی ایمان (ہی میں داخل) ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Belief
(Chapter: To establish the (Nawafil - voluntary) prayers on the night of Qadr is a part of faith)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
35.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص ایمان کا تقاضا سمجھ کر ثواب کی نیت سے شب قدر کا قیام کرے گا، اس کے سابقہ گناہ بخش دئیے جائیں گے۔‘‘
تشریح:
1۔ کفرو نفاق کی اقسام ذکر کرنے کے بعد امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اصل کی طرف رجوع فرماتے ہیں یعنی ایمان اور اس کے متعلقات کو پھر شروع کیا تاکہ مرجیہ کرامیہ اور خوارج وغیرہ کے عقائد و خیالات کا بطلان پورے طور پر ثابت ہو جائے اس سے پہلے ایسے اعمال کا ذکر تھا جن سے نفاق کا اندازہ ہوتا ہے اب ایسی علامتوں کو بیان کیا جاتا ہے جن سے ایمان اور اخلاص کا پتہ چلتا ہے نیز لیلۃ القدر کا معاملہ بڑی محنت وکاوش کا ہے۔ یہ کام وہی کر سکتا ہے جس کے دل میں اخلاص اور جسے دین سے بے پناہ تعلق اور لگاؤ ہو۔ اس باب سے بھی ان لوگوں کی تردید مقصود ہے جو اعمال کو ایمان سے بالکل بے تعلق بتاتے ہیں، حالانکہ ایمان کی حفاظت کے لیے اعمال کی قدم قدم پر ضرورت پڑتی ہے۔ حتی کہ شب قدر کے قیام کی تاکید کی جا رہی ہے۔ 2۔ اس حدیث میں ایمان واحتساب کے الفاظ بطور خاص ذکر کیے گئے ہیں۔ لفظ ایمان میں تنبیہ ہے کہ اس رات کا قیام ایمانی تقاضے کے تحت ہونا چاہیے کوئی دوسرا مقصد پیش نظر نہ ہو۔ اس قسم کے ایمانی تقاضوں سے ایمان میں ترقی ہوگی اور جس ایمان میں اس قسم کے تقاضے شامل نہیں ہوں گے، وہ ایمان کمزور ہوگا۔ اسی طرح لفظ احتساب جس کے معنی نیت کا استحضار ہیں یہ اصل نیت سے زائد شئے ہے۔ عمل کے وقت استحضار نیت اجر میں ترقی کا باعث ہے۔ مثلا: ایک شخص بیدار ہے اور عمل خیر میں مشغول ہے تو یقیناً یہ بڑی سعادت ہے لیکن اگر شب بیداری کے ساتھ نیت کا استحضار بھی ہو جائے تو درجات ثواب میں بہت زیادتی ہوجاتی ہے۔ 3۔ لیلۃ القدرکی وجہ تسمیہ کے متعلق مندرجہ ذیل اقوال ہیں۔ (1) قدر کے معنی عزت و شرف کے ہیں یعنی عزت کی رات یہ عزت رات سے بھی متعلق ہوسکتی ہے یعنی جو رات دیگر تمام راتوں میں خاص امتیاز اور وزن رکھتی ہے۔ اور عابدین سے بھی یہ عزت متعلق ہو سکتی ہے یعنی وہ رات جس میں عبادت کرنے والوں کی بڑی قدر و منزلت ہے نیز یہ عزت عبادت سے بھی متعلق ہو سکتی ہے یعنی اس رات میں کی گئی عبادت دوسری راتوں کے مقابلے میں بڑی قدرومنزلت کی حامل ہے۔ (2) قدر کا لفظ تقدیر سے ہے تو اس سے مراد وہ رات ہے جس میں فرشتوں کو اس سال سے متعلق تقدیرات کا علم دیا جاتا ہے۔ اس میں سال بھر کے لیے فیصلے کیے جاتے ہیں اس لیے اسے لیلة الحکم بھی کہتے ہیں۔ (3) قدر کے معنی تنگی کے بھی ہیں یعنی اس رات اتنی کثرت سے فرشتے زمین پر اترتے ہیں کہ زمین ان کی وجہ سے تنگ ہو جاتی ہے اس رات کی تعیین میں خاصا اختلاف ہے تاہم احادیث و آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے کوئی ایک رات ہے۔ اس کو مبہم رکھنے میں یہ حکمت ہے کہ لوگ طاق راتوں میں اس کی فضیلت حاصل کرنے کے شوق میں اللہ کی خوب عبادت کریں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
35
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
35
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
35
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
35
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے وحی کی عظمت وصداقت ثابت کرنے کے بعد ضروری خیال کیا کہ اب اساس دین یعنی ایمان کی وضاحت کی جائے جو عبادات کی صحت وقبولیت کے لیے مدار اور اخروی نجات کے لیے شرط اول ہے۔ چنانچہ کتاب الایمان میں ایمان ہی سے متعلقہ احادیث ہوں گی۔لفظ ایمان امن سے مشتق ہے جس کے لغوی معنی امن واطمینان ہیں، اسی لغوی معنی کے پیش نظر مومن اسے کہاجاتا ہے جس سے لوگ اپنی جان ومال کے متعلق سکون و اطمینان محسوس کریں۔حدیث میں ہے۔(۔۔۔۔۔مَنْ أَمِنَهُ الْمُؤْمِنُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ )( مسند احمد 2/206۔)"(مومن وہ ہے)جس سے دوسرے مومن اپنی جان و مال کے متعلق بے خوف ہوں۔"اسی طرح یہ تصدق کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِينَ)( المومنون:23۔38۔)"ہم اس کی تصدیق کرنے والے نہیں ہیں۔" کسی کی بات پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اسےاپنی تکذیب کی طرف سے مطمئن کرتے ہیں اور اس کی ا مانت ودیانت پر اپنے اعتماد ووثوق کا اظہار کرتے ہیں۔ایمان کی شرعی تعریف یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ بھی اپنے رب کی طرف سے اصول وراکان اور احکام ومسائل لے کر آئے ہیں ان کی تصدیق کی جائے اور ان کی سچائی کو دل میں بٹھایا جائے۔، پھر زبان سے اس کی تصدیق کا اظہار اور اپنے دیگر اعضاء سے اس کا عملی ثبوت مہیا کیا جائے۔ گویا اس کے لیے تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔ دل سے تصدیق زبان سے اقرار اور دیگراعضاء سے التزام عمل ومتابعت یہود کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت و تصدیق تھی اور منافقین میں بظاہر التزام عمل و متابعت بھی موجود تھا اس کے باوجود مومن نہیں ہیں، لہٰذا تصدیق میں کوتاہی کا مرتکب منافق اور اقرار سے پہلو تہی کفر کا باعث ہے جبکہ عملی کوتا ہی کا مرتکب فاسق ہے۔ اگر انکار کی وجہ سے بدعملی کا شکار ہے تو بھی اس کے کفر میں کوئی شبہ نہیں ایسے حالات میں تصدیق واقرار کا کوئی فائدہ نہیں۔سلف صالحین کا نقطہ نظر بھی یہی ہے کہ ایمان کے متعلق جو آیات واحادیث وارد ہیں ان کی اتباع کو کافی خیال کیا جائے۔ان مباحث کلامیہ کی طرف قطعی التفات نہ کیا جائے جو متاخرین کے"دست ہنر شناس"کا کرشمہ ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ چونکہ سر رشتہ محدثین سے منسلک ہیں، اس لیے انھوں نے ایمان سے متعلق وارد شدہ قرآنی آیات اور احادیث و آثار کے پیش نظر اس موقف کواختیار کیا ہے کہ ایمان بسیط نہیں بلکہ تصدیق قلبی اقرار لسانی اور عمل بدنی سے مرکب ہے۔ تکون کے یہ تینوں زاویے اس قدر لازم ملزوم اور باہم مربوط ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کو الگ کر دیا جائے تو ایسا حقیقی ایمان باقی نہیں رہتا جس سے اخروی نجات کا حصول ممکن ہو۔ اس کے بعض اجزاء اساسی اور بنیادی ہیں جنھیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ارکان اسلام کے نام سے تعبیر کر کے انہیں اولیت دی ہے اور کچھ اجزاء کمال ہیں جنھیں "امور ایمان" کا عنوان دے کر آخر میں بیان کیا ہے قارئین کرام اس تفصیل کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب الایمان کا مطالعہ کریں۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص ایمان کا تقاضا سمجھ کر ثواب کی نیت سے شب قدر کا قیام کرے گا، اس کے سابقہ گناہ بخش دئیے جائیں گے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ کفرو نفاق کی اقسام ذکر کرنے کے بعد امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اصل کی طرف رجوع فرماتے ہیں یعنی ایمان اور اس کے متعلقات کو پھر شروع کیا تاکہ مرجیہ کرامیہ اور خوارج وغیرہ کے عقائد و خیالات کا بطلان پورے طور پر ثابت ہو جائے اس سے پہلے ایسے اعمال کا ذکر تھا جن سے نفاق کا اندازہ ہوتا ہے اب ایسی علامتوں کو بیان کیا جاتا ہے جن سے ایمان اور اخلاص کا پتہ چلتا ہے نیز لیلۃ القدر کا معاملہ بڑی محنت وکاوش کا ہے۔ یہ کام وہی کر سکتا ہے جس کے دل میں اخلاص اور جسے دین سے بے پناہ تعلق اور لگاؤ ہو۔ اس باب سے بھی ان لوگوں کی تردید مقصود ہے جو اعمال کو ایمان سے بالکل بے تعلق بتاتے ہیں، حالانکہ ایمان کی حفاظت کے لیے اعمال کی قدم قدم پر ضرورت پڑتی ہے۔ حتی کہ شب قدر کے قیام کی تاکید کی جا رہی ہے۔ 2۔ اس حدیث میں ایمان واحتساب کے الفاظ بطور خاص ذکر کیے گئے ہیں۔ لفظ ایمان میں تنبیہ ہے کہ اس رات کا قیام ایمانی تقاضے کے تحت ہونا چاہیے کوئی دوسرا مقصد پیش نظر نہ ہو۔ اس قسم کے ایمانی تقاضوں سے ایمان میں ترقی ہوگی اور جس ایمان میں اس قسم کے تقاضے شامل نہیں ہوں گے، وہ ایمان کمزور ہوگا۔ اسی طرح لفظ احتساب جس کے معنی نیت کا استحضار ہیں یہ اصل نیت سے زائد شئے ہے۔ عمل کے وقت استحضار نیت اجر میں ترقی کا باعث ہے۔ مثلا: ایک شخص بیدار ہے اور عمل خیر میں مشغول ہے تو یقیناً یہ بڑی سعادت ہے لیکن اگر شب بیداری کے ساتھ نیت کا استحضار بھی ہو جائے تو درجات ثواب میں بہت زیادتی ہوجاتی ہے۔ 3۔ لیلۃ القدرکی وجہ تسمیہ کے متعلق مندرجہ ذیل اقوال ہیں۔ (1) قدر کے معنی عزت و شرف کے ہیں یعنی عزت کی رات یہ عزت رات سے بھی متعلق ہوسکتی ہے یعنی جو رات دیگر تمام راتوں میں خاص امتیاز اور وزن رکھتی ہے۔ اور عابدین سے بھی یہ عزت متعلق ہو سکتی ہے یعنی وہ رات جس میں عبادت کرنے والوں کی بڑی قدر و منزلت ہے نیز یہ عزت عبادت سے بھی متعلق ہو سکتی ہے یعنی اس رات میں کی گئی عبادت دوسری راتوں کے مقابلے میں بڑی قدرومنزلت کی حامل ہے۔ (2) قدر کا لفظ تقدیر سے ہے تو اس سے مراد وہ رات ہے جس میں فرشتوں کو اس سال سے متعلق تقدیرات کا علم دیا جاتا ہے۔ اس میں سال بھر کے لیے فیصلے کیے جاتے ہیں اس لیے اسے لیلة الحکم بھی کہتے ہیں۔ (3) قدر کے معنی تنگی کے بھی ہیں یعنی اس رات اتنی کثرت سے فرشتے زمین پر اترتے ہیں کہ زمین ان کی وجہ سے تنگ ہو جاتی ہے اس رات کی تعیین میں خاصا اختلاف ہے تاہم احادیث و آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے کوئی ایک رات ہے۔ اس کو مبہم رکھنے میں یہ حکمت ہے کہ لوگ طاق راتوں میں اس کی فضیلت حاصل کرنے کے شوق میں اللہ کی خوب عبادت کریں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انھیں شعیب نے خبر دی، کہا ان سے ابوالزناد نے اعرج کے واسطے سے بیان کیا، اعرج نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے نقل کیا، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص شب قدر ایمان کے ساتھ محض ثواب آخرت کے لیے ذکر و عبادت میں گزارے، اس کے گزشتہ گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "Whoever establishes the prayers on the night of Qadr out of sincere faith and hoping to attain Allah's rewards (not to show off) then all his past sins will be forgiven."