تشریح:
1۔ کفرو نفاق کی اقسام ذکر کرنے کے بعد امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اصل کی طرف رجوع فرماتے ہیں یعنی ایمان اور اس کے متعلقات کو پھر شروع کیا تاکہ مرجیہ کرامیہ اور خوارج وغیرہ کے عقائد و خیالات کا بطلان پورے طور پر ثابت ہو جائے اس سے پہلے ایسے اعمال کا ذکر تھا جن سے نفاق کا اندازہ ہوتا ہے اب ایسی علامتوں کو بیان کیا جاتا ہے جن سے ایمان اور اخلاص کا پتہ چلتا ہے نیز لیلۃ القدر کا معاملہ بڑی محنت وکاوش کا ہے۔ یہ کام وہی کر سکتا ہے جس کے دل میں اخلاص اور جسے دین سے بے پناہ تعلق اور لگاؤ ہو۔ اس باب سے بھی ان لوگوں کی تردید مقصود ہے جو اعمال کو ایمان سے بالکل بے تعلق بتاتے ہیں، حالانکہ ایمان کی حفاظت کے لیے اعمال کی قدم قدم پر ضرورت پڑتی ہے۔ حتی کہ شب قدر کے قیام کی تاکید کی جا رہی ہے۔
2۔ اس حدیث میں ایمان واحتساب کے الفاظ بطور خاص ذکر کیے گئے ہیں۔ لفظ ایمان میں تنبیہ ہے کہ اس رات کا قیام ایمانی تقاضے کے تحت ہونا چاہیے کوئی دوسرا مقصد پیش نظر نہ ہو۔ اس قسم کے ایمانی تقاضوں سے ایمان میں ترقی ہوگی اور جس ایمان میں اس قسم کے تقاضے شامل نہیں ہوں گے، وہ ایمان کمزور ہوگا۔ اسی طرح لفظ احتساب جس کے معنی نیت کا استحضار ہیں یہ اصل نیت سے زائد شئے ہے۔ عمل کے وقت استحضار نیت اجر میں ترقی کا باعث ہے۔ مثلا: ایک شخص بیدار ہے اور عمل خیر میں مشغول ہے تو یقیناً یہ بڑی سعادت ہے لیکن اگر شب بیداری کے ساتھ نیت کا استحضار بھی ہو جائے تو درجات ثواب میں بہت زیادتی ہوجاتی ہے۔
3۔ لیلۃ القدرکی وجہ تسمیہ کے متعلق مندرجہ ذیل اقوال ہیں۔
(1) قدر کے معنی عزت و شرف کے ہیں یعنی عزت کی رات یہ عزت رات سے بھی متعلق ہوسکتی ہے یعنی جو رات دیگر تمام راتوں میں خاص امتیاز اور وزن رکھتی ہے۔ اور عابدین سے بھی یہ عزت متعلق ہو سکتی ہے یعنی وہ رات جس میں عبادت کرنے والوں کی بڑی قدر و منزلت ہے نیز یہ عزت عبادت سے بھی متعلق ہو سکتی ہے یعنی اس رات میں کی گئی عبادت دوسری راتوں کے مقابلے میں بڑی قدرومنزلت کی حامل ہے۔
(2) قدر کا لفظ تقدیر سے ہے تو اس سے مراد وہ رات ہے جس میں فرشتوں کو اس سال سے متعلق تقدیرات کا علم دیا جاتا ہے۔ اس میں سال بھر کے لیے فیصلے کیے جاتے ہیں اس لیے اسے لیلة الحکم بھی کہتے ہیں۔
(3) قدر کے معنی تنگی کے بھی ہیں یعنی اس رات اتنی کثرت سے فرشتے زمین پر اترتے ہیں کہ زمین ان کی وجہ سے تنگ ہو جاتی ہے اس رات کی تعیین میں خاصا اختلاف ہے تاہم احادیث و آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے کوئی ایک رات ہے۔ اس کو مبہم رکھنے میں یہ حکمت ہے کہ لوگ طاق راتوں میں اس کی فضیلت حاصل کرنے کے شوق میں اللہ کی خوب عبادت کریں۔