تشریح:
1۔آیت کریمہ میں عشیرہ کی نسبت آپ کی طرف کی گئی ہے،حالانکہ دونوں قبائل کافر تھے،پھر ان کو نام بنام پکار کر آپ کا دعوت دینا آپ کی طرف سے اس نسبت کو تسلیم کرلینا ہے کہ یہ قبائل آپ کے قریبی رشتے دار تھے۔اس سے معلوم ہواکہ ایسی نسبت عنداللہ معیوب نہیں۔ہمارے ہاں اکثر مسلمان اپنے پُرانے خاندانوں ہی کے نام سے خود کو منسوب کرتے ہیں۔2۔یاد رہے انبیاء ؑ اور اولیاء کے متعلق یہ عقیدہ رکھنا کہ ان کی نسبت سے ہمیں قیامت کےدن جنت کا پروانہ مل جائے گا،یہ عقیدہ سراسر باطل ہے۔3۔بہرحال ان احادیث سے امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ انسان اپنے آباءواجداد کی طرف خود کو منسوب کرسکتا ہے،خواہ وہ کافر ہو یا مسلمان ،البتہ ان کے متعلق غلط عقیدہ رکھنا درست نہیں۔ واللہ أعلم۔