قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: صفات و شمائل

‌صحيح البخاري: كِتَابُ المَنَاقِبِ (بَابُ عَلاَمَاتِ النُّبُوَّةِ فِي الإِسْلاَمِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

3581. حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ عَنْ أَبِيهِ حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ أَنَّهُ حَدَّثَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ أَصْحَابَ الصُّفَّةِ كَانُوا أُنَاسًا فُقَرَاءَ وَأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَرَّةً مَنْ كَانَ عِنْدَهُ طَعَامُ اثْنَيْنِ فَلْيَذْهَبْ بِثَالِثٍ وَمَنْ كَانَ عِنْدَهُ طَعَامُ أَرْبَعَةٍ فَلْيَذْهَبْ بِخَامِسٍ أَوْ سَادِسٍ أَوْ كَمَا قَالَ وَأَنَّ أَبَا بَكْرٍ جَاءَ بِثَلَاثَةٍ وَانْطَلَقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَشَرَةٍ وَأَبُو بَكْرٍ ثَلَاثَةً قَالَ فَهُوَ أَنَا وَأَبِي وَأُمِّي وَلَا أَدْرِي هَلْ قَالَ امْرَأَتِي وَخَادِمِي بَيْنَ بَيْتِنَا وَبَيْنَ بَيْتِ أَبِي بَكْرٍ وَأَنَّ أَبَا بَكْرٍ تَعَشَّى عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ لَبِثَ حَتَّى صَلَّى الْعِشَاءَ ثُمَّ رَجَعَ فَلَبِثَ حَتَّى تَعَشَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَاءَ بَعْدَ مَا مَضَى مِنْ اللَّيْلِ مَا شَاءَ اللَّهُ قَالَتْ لَهُ امْرَأَتُهُ مَا حَبَسَكَ عَنْ أَضْيَافِكَ أَوْ ضَيْفِكَ قَالَ أَوَعَشَّيْتِهِمْ قَالَتْ أَبَوْا حَتَّى تَجِيءَ قَدْ عَرَضُوا عَلَيْهِمْ فَغَلَبُوهُمْ فَذَهَبْتُ فَاخْتَبَأْتُ فَقَالَ يَا غُنْثَرُ فَجَدَّعَ وَسَبَّ وَقَالَ كُلُوا وَقَالَ لَا أَطْعَمُهُ أَبَدًا قَالَ وَايْمُ اللَّهِ مَا كُنَّا نَأْخُذُ مِنْ اللُّقْمَةِ إِلَّا رَبَا مِنْ أَسْفَلِهَا أَكْثَرُ مِنْهَا حَتَّى شَبِعُوا وَصَارَتْ أَكْثَرَ مِمَّا كَانَتْ قَبْلُ فَنَظَرَ أَبُو بَكْرٍ فَإِذَا شَيْءٌ أَوْ أَكْثَرُ قَالَ لِامْرَأَتِهِ يَا أُخْتَ بَنِي فِرَاسٍ قَالَتْ لَا وَقُرَّةِ عَيْنِي لَهِيَ الْآنَ أَكْثَرُ مِمَّا قَبْلُ بِثَلَاثِ مَرَّاتٍ فَأَكَلَ مِنْهَا أَبُو بَكْرٍ وَقَالَ إِنَّمَا كَانَ الشَّيْطَانُ يَعْنِي يَمِينَهُ ثُمَّ أَكَلَ مِنْهَا لُقْمَةً ثُمَّ حَمَلَهَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَصْبَحَتْ عِنْدَهُ وَكَانَ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمٍ عَهْدٌ فَمَضَى الْأَجَلُ فَتَفَرَّقْنَا اثْنَا عَشَرَ رَجُلًا مَعَ كُلِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ أُنَاسٌ اللَّهُ أَعْلَمُ كَمْ مَعَ كُلِّ رَجُلٍ غَيْرَ أَنَّهُ بَعَثَ مَعَهُمْ قَالَ أَكَلُوا مِنْهَا أَجْمَعُونَ أَوْ كَمَا قَالَ وَغَيْرُهُ يَقُولُ فَعَرَفْنَا مِنْ الْعِرَافَةِ

مترجم:

3581.

حضرت عبدالرحمان بن ابو بکر ؓ سے روایت ہے کہ اصحاب صفہ بہت نادار اور مفلس لوگ تھے۔ نبی کریم ﷺ نے ایک دن فرمایا: ’’جس کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہو وہ تیسرے آدمی کو ساتھ لے جائے اور جس کے پاس چار آدمیوں کا کھانا ہووہ پانچویں چھٹے کو ساتھ لے جائے۔ ‘‘یااسی طرح آپ نے کچھ فرمایا۔ حضرت ابوبکر  ؓ اپنے ساتھ تین ہمان لے آئے جبکہ نبی کریم ﷺ اپنے ساتھ دس مہمانوں کو لے کر گئے۔ بہرحال حضرت ابوبکر  ؓ  گھر کے افراد سے تین آدمی زائد لائے تھے کیونکہ گھر میں میں، میرا باپ اور میری والدہ وغیرہ تھے۔ (راوی کہتا ہے کہ) مجھے یاد نہیں کہ اس(عبدالرحمان  ؓ ) نے بیوی بھی کہا تھا یا نہیں۔ ایک خادم جو میرے اور حضرت ابوبکر  ؓ کے گھر میں کام کرتا تھا۔ حضرت ابوبکر  ؓ نے شام کاکھانا نبی کریم ﷺ کے ساتھ کھایا، پھر کچھ وقت وہاں ٹھہرے اور نماز عشاء وہیں ادا کی حتیٰ کہ رسول اللہ ﷺ نے شام کا کھانا تناول فرمایا۔ حضرت ابوبکر  ؓ جب کافی رات گزارنے کے بعد گھر تشریف لائے تو ان کی بیوی نے کہا: آپ کو مہمانوں کا خیال نہ رہا تھا، کیابات تھی؟(حضرت ابوبکر  ؓ نے)فرمایا: کیا آپ نے مہمانوں کو ابھی تک کھانا نہیں کھلایا؟بیوی نے عرض کیا: مہمانوں نے آپ کے آنے تک کھانا کھانے سے انکار کردیا تھا، ہم نے ان کے سامنے کھانا پیش کیا لیکن وہ نہیں مانے۔ عبدالرحمان کہتے ہیں کہ میں تو وہاں سے کسی دوسری جگہ چھپ گیا۔ حضرت ابوبکر  ؓ نے(غصے میں آکر) کہا: اے کم عقل!اور مجھے بہت بُرا بھلاکہا، پھر مہمانوں سے کہا: کھانا کھاؤ۔ میں تو اس کھانے کو کبھی نہیں کھاؤں گا۔ حضرت عبدالرحمان  ؓ بیان کرتے ہیں: اللہ کی قسم! ہم اس کھانے سے جو لقمہ بھی اٹھاتے تھے وہ نیچے سے بڑھ کرپہلے سے زیادہ ہوجاتا تھا حتیٰ کہ سب لوگوں نے خوب شکم سیر ہوکر کھایا لیکن کھانا پہلے سے بھی زیادہ بچ گیا۔ حضرت ابوبکر نے بغور ملاحظہ کیا تو کھانا جوں کا توں یا پہلے سے بھی زیادہ تھا۔ انھوں نے اپنی بیوی سے کہا: بنو بنی فراس کی بہن!یہ کیا معاملہ ہے؟انھوں نے کہا: میری آنکھ کی ٹھنڈک!یہ تو پہلے سے تین گنا زیادہ ہے، تاہم حضرت ابوبکر  نے اس سے کھایا اور فرمایا کہ ان کی وہ قسم شیطان کی طرف سے تھی۔ پھر انھوں نے دوبارہ اس میں سے کئی لقمے تناول فرمائے۔ بعد ازاں اسے اٹھا کرنبی کریم ﷺ کی خدمت میں لے گئے جو صبح کے وقت تک آپ کے پاس رہا۔ اتفاق سے ہمارے اور لوگوں کے درمیان ایک معاہدہ تھا۔ میعاد ختم ہونے پروہ لوگ آئے۔ ہم نے ان میں سے بارہ نمائندوں کا انتخاب کیا اور ہر نمائندے کے ساتھ کئی کئی آدمی تھے۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ان کی تعداد کتنی تھی۔ بہرحال آپ ﷺ نے یہ کھانا ان کے پاس بھی بھیجا اور تمام لوگوں نے اس سے کھانا کھایا یا عبدالرحمان نے کچھ ایساہی کہا۔