تشریح:
1۔محدث وہ ہوتا ہے جس پر اللہ کی طرف سے الہام ہوا اور حق اس کی زبان پر جاری ہوجائے یا جس سے فرشتے ہم کلام ہوں یا وہ جس کی رائے بالکل صحیح ثابت ہو۔حضرت عمر ؓ بھی ایسے ہی لوگوں میں سے ہیں۔ان کی تخصیص اس وجہ سے ہے کہ ان کے موافقات بہت ہیں جو قرآن مجید کے عین مطابق ہیں اور رسول اللہ ﷺ کی و فات کے بعد بھی ان کی درست باتوں کی کمی نہیں ہے۔اس امر کی وضاحت ایک حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ نے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زبان پر حق رکھ دیاہے۔‘‘ (سنن أبي داود، الخراج، حدیث:2982) 2۔حدیث کے آخر میں حضر ت ابن عباس ؓ کی ایک قراءت نقل ہوئی ہے ۔پوری آیت اس طرح ہے:﴿وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ وَلَا نَبِيٍّ۔۔۔۔۔۔۔﴾’’ہم نے آپ سے پہلے جو بھی رسول یا نبی بھیجا۔۔۔‘‘ (الحج:52:22) وہ اس آیت میں نبی کے بعد محدث کا لفظ بھی پڑھتے تھے۔واللہ أعلم۔