1۔ بیت اللہ کا برہنہ طواف کرنے کی ممانعت ہی ستر پوشی کے وجوب کی دلیل ہے۔ عنوان کے ساتھ حدیث کے اسی جز کی مطابقت ہے۔ (عمدة القاري:291/3) حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ دور جاہلیت میں عورت بیت اللہ کا طواف بالکل برہنہ ہو کر کرتی اور کہتی کہ مجھے کوئی طواف کے لیے اتنا کپڑا عاریتاً دے دے جس سے میں اپنی شرم گاہ ڈھانپ سکوں اور وہ شعر پڑھتی۔
آج جسم کا کچھ حصہ یا تمام جسم ننگا ہے اور جو حصہ عریاں ہے اسے کسی دوسرے کے لیے حلال نہیں کرتی ہوں
اللہ تعالیٰ نے اسی عریانی کے سد باب کے لیے یہ آیت نازل فرمائی : ﴿ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ ﴾ ’’اے اولاد آدم!ہر مسجد میں نماز کی حاضری کے وقت اپنا لباس پہن لیا کرو۔‘‘ (صحیح مسلم، التفسیر، حدیث:7551 (3028)) 2۔ جب حج فرض ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کو حجاج کا امیر بنا کر روانہ فرمایا:انھوں نے مکہ پہنچ کر حضرت ابو ہریرہ ؓ کو اعلان پر مامور کیا جس کا ذکر حدیث میں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے جس اعلان براءت کے لیے حضرت علی ؓ کو روانہ فرمایا تھا وہ سورہ براءت کی ابتدائی آیات تھیں۔ جامع ترمذی میں اس کی تفصیل ہے: حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ پہلے رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کو ان امور کے اعلان کرنے کا حکم دیا۔ پھر حضرت علیؓ کو حکم فرمایا:پھر جب دونوں حضرات نے حج کر لیا تو حضرت علی ؓ نے چار باتوں کا اعلان کیا: © اللہ اور اس کا رسول اللہ ﷺ ہر مشرک سے بری الذمہ ہے، انھیں صرف چار ماہ کی رعایت ہے۔ © اس سال کے بعد کوئی مشرک بیت اللہ کے حج کے لیے نہیں آسکے گا۔ © کوئی شخص برہنہ ہو کر بیت اللہ کا طواف نہیں کرے گا۔ © اللہ کی جنت میں صرف اہل ایمان کو داخلہ ملے گا۔ حضرت علی ؓ اعلان کرتے تھے جب وہ تھک جاتے تو حضرت ابو بکر صدیق ؓ کھڑے ہو کر انھی باتوں کا اعلان کرتے۔ (جامع الترمذي، التفسیر، حدیث:3091) 3 حضرت علی ؓ کو الگ سے آیات براءت پڑھنے کے حکم میں یہ حکمت تھی کہ ان آیات میں نقض عہد کی بات تھی اور عرب کے دستور کے مطابق نقض عہد وہی کر سکتا تھا جس نے عہد باندھا ہو یا پھر کوئی ایسا شخص یہ کام کرتا جو اس کے اہل بیت سے ہوتا۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ نے چاہا کہ نقض عہد کی بات دو ٹوک ہو جائے اور کسی کو اس پر اعتراض کرنے کا موقع ہاتھ نہ آئے۔ بعض نے کہا ہے کہ سورہ براءت میں چونکہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کا ذکر خیر تھا اس لیے منا سب ہوا کہ آیات براءت کوکوئی دوسرا شخص پڑھ کر سنائے۔ (عمدة القاري:3/292) 4۔ حج کی فرضیت نویں سال ہوئی لیکن رسول اللہ ﷺ نے اس سال حج نہیں فرمایا جبکہ فریضہ حج جلد ادا کرنا مطلوب ہے۔ آپ نے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کو حج کے لیے روانہ فرمایا۔ شارحین نے اس کی وجہ یہ بتائی ہے کہ عرب کے ہاں ایک بری رسم تھی کہ وہ اپنی مطلب برآری کے لیے مہینوں کو آگے پیچھے کر دیتے تھے جسے قرآن کریم نے نسئی سے تعبیر کیا ہے، اس فعل شنیع کی وجہ سے ایام حج اپنی مقرر ہ جگہ سے آگے پیچھے جاتے۔ جس سال حج فرض ہوا اس وقت بھی ایسی ہی صورت تھی کہ حج اپنے خاص مہینے میں ادا نہیں ہوا تھا۔ دسویں حج ٹھیک اپنے مہینوں میں آگیا جس کی وضاحت آپ نے حجۃ الوداع کے موقع پر مختلف خطبات میں فرمائی، اس لیے آپ نے نویں سال حج کرنے کی بجائے دسویں سال یہ فریضہ ادا فرمایا تاکہ یہ اپنے ایام میں ادا ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ جن فرد گزاشتوں کی اصلاح ناممکن یا دشوار ہو ان میں مسامحت سے بھی کام لیا جا سکتا ہے، کیونکہ جن لوگوں نے ہجرت کے نویں سال حج کیا ان کا حج یقیناً معتبر ہوا ہے، کسی کو بھی اس کی قضا کا حکم نہیں دیا گیا۔ واللہ أعلم ۔