باب: اس بارے میں کہ رمضان شریف کی راتوں میں نفلی قیام کرنا بھی ایمان ہی میں سے ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Belief
(Chapter: It is a part of faith to establish the (Nawafil — voluntary) prayers during the nights of Ramadan)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
37.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص رمضان میں ایماندار ہو کر حصول ثواب کے لیے رات کے وقت قیام کرے گا تو اس کے سابقہ گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔‘‘
تشریح:
1۔ گناہوں کی معافی میں حقوق العباد شامل نہیں ہیں کیونکہ اس بات پر امت کا اتفاق ہے کہ حقوق العباد حقداروں کی رضا مندی ہی سے ساقط ہو سکتے ہیں۔ قیامت کے دن حق داروں کی برائیاں لے کر اور اپنی نیکیاں دے کر ان کی تلافی ممکن ہے الایہ کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنی طرف سے ثواب دے کر راضی کردے۔ 2۔ غفران ذنوب اس طرح کے اعمال کا خاصہ ہے تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ کوئی مانع موجود نہ ہو۔ اگر کوئی مانع پایا گیا تو یہ اعمال اپنا خاصہ نہیں دکھا سکیں گے۔ جب بہت سے اعمال خیر اس خاصے میں شریک ہوں تو مغفرت کسی ایک عمل سے حاصل ہو جائے گی۔ باقی اعمال کا کیا فائدہ ہوگا؟ مغفرت ذنوب کے لیے بقائے ذنوب ضروری ہے جب ذنوب ختم ہو گئے تو مغفرت کیسی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مغفرت کے کئی ایک درجات ہیں: جب ذنوب نہیں ہوں گے۔ تو یہ مغفرت ترقی درجات اور قرب منزلت کا باعث بن جائے گی۔ نیز اس کا یہ فائدہ بھی ہے کہ ایسے اعمال کی طرف خاص رغبت پیدا ہوگی اور ان کے اضداد سے بچنے کا اہتمام ہوگا۔ (شرح الکرماني: 158/1) 3۔ قیام رمضان سے مراد نماز تراویح ہے۔ وتر سمیت اس کی مقدار گیارہ رکعات ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ حضرت ابو سلمہ بن عبد الرحمٰن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تراویح کے متعلق سوال کیا تو انھوں نے فرمایا: آپ رمضان یا غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زائد نہیں پڑھا کرتے تھے۔ (صحیح البخاري، صلاة التراویح، حدیث: 2013) حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اپنے عہد خلافت میں تراویح کی آٹھ رکعات کو باجماعت ادا کرنے کا اہتمام فرمایا تھا۔ (الموطا للإمام مالك 120/1۔ حدیث، 256 طبع دارالمعرفة) ۔4 ۔شب قدر کے باب میں حدیث کے الفاظ مضارع کے صیغے سے تھے اور قیام رمضان و صوم رمضان میں بصیغہ ماضی ہیں اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ شب قدر کا پانا یقینی نہیں ہے بنا بریں صیغہ مضارع استعمال ہوا ہے اور قیام رمضان و صیام رمضان یقینی ہیں، اس لیے ان کے مناسب، ماضی کا صیغہ ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
37
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
37
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
37
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
37
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے وحی کی عظمت وصداقت ثابت کرنے کے بعد ضروری خیال کیا کہ اب اساس دین یعنی ایمان کی وضاحت کی جائے جو عبادات کی صحت وقبولیت کے لیے مدار اور اخروی نجات کے لیے شرط اول ہے۔ چنانچہ کتاب الایمان میں ایمان ہی سے متعلقہ احادیث ہوں گی۔لفظ ایمان امن سے مشتق ہے جس کے لغوی معنی امن واطمینان ہیں، اسی لغوی معنی کے پیش نظر مومن اسے کہاجاتا ہے جس سے لوگ اپنی جان ومال کے متعلق سکون و اطمینان محسوس کریں۔حدیث میں ہے۔(۔۔۔۔۔مَنْ أَمِنَهُ الْمُؤْمِنُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ )( مسند احمد 2/206۔)"(مومن وہ ہے)جس سے دوسرے مومن اپنی جان و مال کے متعلق بے خوف ہوں۔"اسی طرح یہ تصدق کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِينَ)( المومنون:23۔38۔)"ہم اس کی تصدیق کرنے والے نہیں ہیں۔" کسی کی بات پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اسےاپنی تکذیب کی طرف سے مطمئن کرتے ہیں اور اس کی ا مانت ودیانت پر اپنے اعتماد ووثوق کا اظہار کرتے ہیں۔ایمان کی شرعی تعریف یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ بھی اپنے رب کی طرف سے اصول وراکان اور احکام ومسائل لے کر آئے ہیں ان کی تصدیق کی جائے اور ان کی سچائی کو دل میں بٹھایا جائے۔، پھر زبان سے اس کی تصدیق کا اظہار اور اپنے دیگر اعضاء سے اس کا عملی ثبوت مہیا کیا جائے۔ گویا اس کے لیے تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔ دل سے تصدیق زبان سے اقرار اور دیگراعضاء سے التزام عمل ومتابعت یہود کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت و تصدیق تھی اور منافقین میں بظاہر التزام عمل و متابعت بھی موجود تھا اس کے باوجود مومن نہیں ہیں، لہٰذا تصدیق میں کوتاہی کا مرتکب منافق اور اقرار سے پہلو تہی کفر کا باعث ہے جبکہ عملی کوتا ہی کا مرتکب فاسق ہے۔ اگر انکار کی وجہ سے بدعملی کا شکار ہے تو بھی اس کے کفر میں کوئی شبہ نہیں ایسے حالات میں تصدیق واقرار کا کوئی فائدہ نہیں۔سلف صالحین کا نقطہ نظر بھی یہی ہے کہ ایمان کے متعلق جو آیات واحادیث وارد ہیں ان کی اتباع کو کافی خیال کیا جائے۔ان مباحث کلامیہ کی طرف قطعی التفات نہ کیا جائے جو متاخرین کے"دست ہنر شناس"کا کرشمہ ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ چونکہ سر رشتہ محدثین سے منسلک ہیں، اس لیے انھوں نے ایمان سے متعلق وارد شدہ قرآنی آیات اور احادیث و آثار کے پیش نظر اس موقف کواختیار کیا ہے کہ ایمان بسیط نہیں بلکہ تصدیق قلبی اقرار لسانی اور عمل بدنی سے مرکب ہے۔ تکون کے یہ تینوں زاویے اس قدر لازم ملزوم اور باہم مربوط ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کو الگ کر دیا جائے تو ایسا حقیقی ایمان باقی نہیں رہتا جس سے اخروی نجات کا حصول ممکن ہو۔ اس کے بعض اجزاء اساسی اور بنیادی ہیں جنھیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ارکان اسلام کے نام سے تعبیر کر کے انہیں اولیت دی ہے اور کچھ اجزاء کمال ہیں جنھیں "امور ایمان" کا عنوان دے کر آخر میں بیان کیا ہے قارئین کرام اس تفصیل کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب الایمان کا مطالعہ کریں۔
تمہید باب
محدثین کے ہاں ایمان مرکب ہے لیکن اس میں اختلاف ہے کہ فرائض و نوافل دونوں ایمان کاحصہ ہیں یا صرف فرائض ہی ایمان میں داخل ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا رجحان یہ ہے کہ فرائض و نوافل دونوں اجزائے ایمان ہیں غالباً اسی لیے انھوں نے تطوع قیام رمضان کی قید لگائی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ایمان کے لیے اعمال کی ضرورت اور جزئیت صرف فرائض تک محدود نہیں بلکہ نوافل بھی ایمان کا حصہ ہیں۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص رمضان میں ایماندار ہو کر حصول ثواب کے لیے رات کے وقت قیام کرے گا تو اس کے سابقہ گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ گناہوں کی معافی میں حقوق العباد شامل نہیں ہیں کیونکہ اس بات پر امت کا اتفاق ہے کہ حقوق العباد حقداروں کی رضا مندی ہی سے ساقط ہو سکتے ہیں۔ قیامت کے دن حق داروں کی برائیاں لے کر اور اپنی نیکیاں دے کر ان کی تلافی ممکن ہے الایہ کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنی طرف سے ثواب دے کر راضی کردے۔ 2۔ غفران ذنوب اس طرح کے اعمال کا خاصہ ہے تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ کوئی مانع موجود نہ ہو۔ اگر کوئی مانع پایا گیا تو یہ اعمال اپنا خاصہ نہیں دکھا سکیں گے۔ جب بہت سے اعمال خیر اس خاصے میں شریک ہوں تو مغفرت کسی ایک عمل سے حاصل ہو جائے گی۔ باقی اعمال کا کیا فائدہ ہوگا؟ مغفرت ذنوب کے لیے بقائے ذنوب ضروری ہے جب ذنوب ختم ہو گئے تو مغفرت کیسی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مغفرت کے کئی ایک درجات ہیں: جب ذنوب نہیں ہوں گے۔ تو یہ مغفرت ترقی درجات اور قرب منزلت کا باعث بن جائے گی۔ نیز اس کا یہ فائدہ بھی ہے کہ ایسے اعمال کی طرف خاص رغبت پیدا ہوگی اور ان کے اضداد سے بچنے کا اہتمام ہوگا۔ (شرح الکرماني: 158/1) 3۔ قیام رمضان سے مراد نماز تراویح ہے۔ وتر سمیت اس کی مقدار گیارہ رکعات ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ حضرت ابو سلمہ بن عبد الرحمٰن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تراویح کے متعلق سوال کیا تو انھوں نے فرمایا: آپ رمضان یا غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زائد نہیں پڑھا کرتے تھے۔ (صحیح البخاري، صلاة التراویح، حدیث: 2013) حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اپنے عہد خلافت میں تراویح کی آٹھ رکعات کو باجماعت ادا کرنے کا اہتمام فرمایا تھا۔ (الموطا للإمام مالك 120/1۔ حدیث، 256 طبع دارالمعرفة) ۔4 ۔شب قدر کے باب میں حدیث کے الفاظ مضارع کے صیغے سے تھے اور قیام رمضان و صوم رمضان میں بصیغہ ماضی ہیں اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ شب قدر کا پانا یقینی نہیں ہے بنا بریں صیغہ مضارع استعمال ہوا ہے اور قیام رمضان و صیام رمضان یقینی ہیں، اس لیے ان کے مناسب، ماضی کا صیغہ ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک رحمہ اللہ نے بیان کیا، انھوں نے ابن شہاب سے نقل کیا، انھوں نے حمید بن عبدالرحمن سے، انھوں نے ابوہریرہ ؓ سے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: ’’جو کوئی رمضان میں (راتوں کو) ایمان رکھ کر اور ثواب کے لیے عبادت کرے اس کے اگلے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمہ باب کا مقصد قیام رمضان کو بھی ایمان کا ایک جزوثابت کرنا اور مرجیہ کی تردید کرنا ہے جو اعمال صالحہ کو ایمان سے جدا قرار دیتے ہیں۔ قیام رمضان سے تراویح کی نماز مراد ہے۔ جس میں آٹھ رکعات تراویح اور تین وتر ہیں۔ حضرت عمر ؓ نے اپنے عہد خلافت میں تراویح کی آٹھ رکعات کو باجماعت ادا کرنے کا طریقہ رائج فرمایا تھا۔ (مؤطا امام مالک) آج کل جو لوگ آٹھ رکعت تراویح کوناجائز اور بدعت قراردے رہے ہیں وہ سخت غلطی پر ہیں۔ خدا ان کو نیک سمجھ بخشے۔ آمین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said: "Whoever establishes prayers during the nights of Ramadan faithfully out of sincere faith and hoping to attain Allah's rewards (not for showing off), all his past sins will be forgiven."