تشریح:
1۔ گناہوں کی معافی میں حقوق العباد شامل نہیں ہیں کیونکہ اس بات پر امت کا اتفاق ہے کہ حقوق العباد حقداروں کی رضا مندی ہی سے ساقط ہو سکتے ہیں۔ قیامت کے دن حق داروں کی برائیاں لے کر اور اپنی نیکیاں دے کر ان کی تلافی ممکن ہے الایہ کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنی طرف سے ثواب دے کر راضی کردے۔
2۔ غفران ذنوب اس طرح کے اعمال کا خاصہ ہے تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ کوئی مانع موجود نہ ہو۔ اگر کوئی مانع پایا گیا تو یہ اعمال اپنا خاصہ نہیں دکھا سکیں گے۔ جب بہت سے اعمال خیر اس خاصے میں شریک ہوں تو مغفرت کسی ایک عمل سے حاصل ہو جائے گی۔ باقی اعمال کا کیا فائدہ ہوگا؟ مغفرت ذنوب کے لیے بقائے ذنوب ضروری ہے جب ذنوب ختم ہو گئے تو مغفرت کیسی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مغفرت کے کئی ایک درجات ہیں: جب ذنوب نہیں ہوں گے۔ تو یہ مغفرت ترقی درجات اور قرب منزلت کا باعث بن جائے گی۔ نیز اس کا یہ فائدہ بھی ہے کہ ایسے اعمال کی طرف خاص رغبت پیدا ہوگی اور ان کے اضداد سے بچنے کا اہتمام ہوگا۔ (شرح الکرماني: 158/1)
3۔ قیام رمضان سے مراد نماز تراویح ہے۔ وتر سمیت اس کی مقدار گیارہ رکعات ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ حضرت ابو سلمہ بن عبد الرحمٰن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تراویح کے متعلق سوال کیا تو انھوں نے فرمایا: آپ رمضان یا غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زائد نہیں پڑھا کرتے تھے۔ (صحیح البخاري، صلاة التراویح، حدیث: 2013) حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اپنے عہد خلافت میں تراویح کی آٹھ رکعات کو باجماعت ادا کرنے کا اہتمام فرمایا تھا۔ (الموطا للإمام مالك 120/1۔ حدیث، 256 طبع دارالمعرفة)
۔4 ۔شب قدر کے باب میں حدیث کے الفاظ مضارع کے صیغے سے تھے اور قیام رمضان و صوم رمضان میں بصیغہ ماضی ہیں اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ شب قدر کا پانا یقینی نہیں ہے بنا بریں صیغہ مضارع استعمال ہوا ہے اور قیام رمضان و صیام رمضان یقینی ہیں، اس لیے ان کے مناسب، ماضی کا صیغہ ہے۔