قسم الحديث (القائل): موقوف ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: کِتَابُ فَضَائِلِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ (بَابُ مَنَاقِبِ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ الهَاشِمِيِّؓ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ ﷺ«أَشْبَهْتَ خَلْقِي وَخُلُقِي»

3708. حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ دِينَارٍ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْجُهَنِيُّ عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّاسَ كَانُوا يَقُولُونَ أَكْثَرَ أَبُو هُرَيْرَةَ وَإِنِّي كُنْتُ أَلْزَمُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشِبَعِ بَطْنِي حَتَّى لَا آكُلُ الْخَمِيرَ وَلَا أَلْبَسُ الْحَبِيرَ وَلَا يَخْدُمُنِي فُلَانٌ وَلَا فُلَانَةُ وَكُنْتُ أُلْصِقُ بَطْنِي بِالْحَصْبَاءِ مِنْ الْجُوعِ وَإِنْ كُنْتُ لَأَسْتَقْرِئُ الرَّجُلَ الْآيَةَ هِيَ مَعِي كَيْ يَنْقَلِبَ بِي فَيُطْعِمَنِي وَكَانَ أَخْيَرَ النَّاسِ لِلْمِسْكِينِ جَعْفَرُ بْنُ أَبِي طَالِبٍ كَانَ يَنْقَلِبُ بِنَا فَيُطْعِمُنَا مَا كَانَ فِي بَيْتِهِ حَتَّى إِنْ كَانَ لَيُخْرِجُ إِلَيْنَا الْعُكَّةَ الَّتِي لَيْسَ فِيهَا شَيْءٌ فَنَشُقُّهَا فَنَلْعَقُ مَا فِيهَا

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور رسول اللہ ﷺنے ان سے فرمایاتھا کہ تم صورت اور سیرت میں مجھ سے زیادہ مشابہ ہو ۔ حضرت جعفر ؓ علیؓ سے دس سال بڑے تھے، ان کا لقب ذوالجناحین ہے۔ اسلام قبول کرتے ہوئے انہوں نے آنحضرت ﷺ کے بائیں جانب کھڑے ہوکر نماز ادا کی تھی۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ جیسے تم نے میرے ساتھ مل کر نماز پڑھی ہے اللہ پاک تم کو جنت میں دوبازو عطا فرمائے گا اور تم جنت میں اڑتے پھروگے۔ بعمر 41سال جنگ موتہ 8 ھ میں جام شہادت نوش فرمایا، ان کی چھاتی میں تلواروں اور نیزوں کے نوے زخم پائے گئے تھے۔ ( ؓ)

3708.

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، لوگ کہتے ہیں کہ ابوہریرہ   بہت احادیث بیان کرتا ہے۔ دراصل بات یہ ہے کہ میں اپنا پیٹ بھرنے کے لیے ہر وقت رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں رہتا تھا، نہ تو میں خمیری روٹی کھاتا اور نہ عمدہ لباس ہی پہنتا، نہ میری خدمت کے لیے فلاں مرد اور فلاں عورت ہی تھی۔ میں بھوک کی شدت کیوجہ سے اپنے پیٹ پر پتھر باندھ لیاکرتا۔ بعض اوقات میں کسی سے کوئی آیت پوچھتا، حالانکہ وہ آیت مجھے یاد ہوتی تھی۔ میرا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ مجھے گھر لے جا کر کھانا کھلادے۔ حضرت جعفر بن ابی طالب  ؓ مساکین کے حق میں تمام لوگوں سے زیادہ بہتر تھے۔ وہ ہمیں اپنے گھر لے جاتے اور جو کچھ گھر میں میسر ہوتا وہ ہمیں کھلاتے۔ بعض اوقات تو ایسا ہوتا کہ وہ شہد یا گھی کی کپی ہی لے آتے جس میں کچھ نہ ہوتا وہ اسے پھاڑ دیتے اور اس میں جو کچھ ہوتا ہم اسے چاٹ لیتے تھے۔