قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: کِتَابُ فَضَائِلِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ (بَابُ مَنَاقِبِ الزُّبَيْرِ بْنِ العَوَّامِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ هُوَ حَوَارِيُّ النَّبِيِّ ﷺ وَسُمِّيَ الحَوَارِيُّونَ لِبَيَاضِ ثِيَابِهِمْ

3720. حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ قَالَ كُنْتُ يَوْمَ الْأَحْزَابِ جُعِلْتُ أَنَا وَعُمَرُ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ فِي النِّسَاءِ فَنَظَرْتُ فَإِذَا أَنَا بِالزُّبَيْرِ عَلَى فَرَسِهِ يَخْتَلِفُ إِلَى بَنِي قُرَيْظَةَ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا فَلَمَّا رَجَعْتُ قُلْتُ يَا أَبَتِ رَأَيْتُكَ تَخْتَلِفُ قَالَ أَوَهَلْ رَأَيْتَنِي يَا بُنَيَّ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ يَأْتِ بَنِي قُرَيْظَةَ فَيَأْتِينِي بِخَبَرِهِمْ فَانْطَلَقْتُ فَلَمَّا رَجَعْتُ جَمَعَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَوَيْهِ فَقَالَ فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي

مترجم:

ترجمۃ الباب:

حضرت ابن عباس ؓ نے کہا کہ وہ نبی کریم ﷺکے حواری تھے اور انہیں ( حضرت عیسیٰ ؑکے حواریین کو ) حواریین ان کے سفید کپڑوں کی وجہ سے کہتے ہیں ( بعض لوگوں نے ان کو دھوبی بتلایاہے )آپ کی کنیت ابوعبداللہ قریشی ہے، ان کی والدہ حضرت صفیہؓ عبدالمطلب کی بیٹی اور حضور ﷺ کی پھوپھی ہیں، سولہ سال کی عمر میں اسلام لائے ، ان کے چچا نے دھوئیں میںان کا دم گھونٹ دیا تاکہ یہ اسلام چھوڑدیں، مگر یہ ثابت قدم رہے، عشرہ مبشرہ میں سے ہیں ، جملہ غزوات میں شریک رہے۔ لمبے قد اور گورے رنگ کے تھے۔ ایک ظالم عمر و بن جرموزنامی نے بصرہ کی سرزمین پر 36 ھ میں بعمر چونسٹھ سال ان کو شہید کردیا، وادی سباع میں دفن ہوئے، پھر ان کو بصرہ میں منتقل کیا گیا۔ ( ؓ)

3720.

حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ غزوہ احزاب کے وقت مجھے اور عمر بن ابوسلمہ ؓ  کو(کمسن ہونے کی وجہ سے) عورتوں میں چھوڑ دیا گیا۔ پھر میں نے جو نظر دوڑائی تو دیکھا کہ حضرت زبیر بن عوام  ؓ  اپنے گھوڑے پرسوار ہیں اور دو یا تین بار بنو قریظہ کی طرف گئے ہیں، پھر واپس آئے ہیں۔ جب اختتام جنگ پر میں واپس آیا تو کہا: ابوجان!میں نے آپ کو دیکھا کہ بار بار ادھر آتے جاتے تھے؟انھوں نے فرمایا: بیٹا!تونے مجھے دیکھاتھا؟میں نے عرض کیا: جی ہاں۔ انھوں نے وضاحت فرمائی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:   ’’کوئی ایسا ہے جو بنو قریظہ کے پاس جائے اور میرے پاس ان کی خبر لائے؟‘‘ چنانچہ میں اس مہم کے لیے گیا۔ پھر جب میں واپس آیا تو رسول اللہ ﷺ نے اپنے ماں باپ یکجا جمع کرکے فرمایا: ’’میرے ماں باپ تم پر فدا ہوں۔‘‘