تشریح:
جب مہاجرین اپنا وطن مکہ چھوڑ کر مدینہ طیبہ آئے تو معاش کے ہاتھوں بہت پریشان تھے گھر بار عزیز واقارب اور کاروبار چھوٹنے کا غم اس پر مستزاد تھا۔ رسول اللہ ﷺنے اس موقع پر مہاجرین اور انصار کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا، جس کی وجہ سے مہاجرین وانصارآپس میں شیر و شکر ہوگئے اور ایک دوسرے کو حقیقی بھائی سمجھنے لگے۔ تقسیم باغات کی پیش کش بھی سلسلہ مؤاخات کا نتیجہ تھا جسے رسول اللﷺنے منظور نہ فرمایا کیونکہ آپ کو بذریعہ وحی معلوم ہو گیا تھا کہ آئندہ بہت فتوحات ہوں گی۔ بہت سی جائیدادیں مسلمانوں کے ہاتھ لگیں گی۔ اس بنا پر آپ نے انصار کی موروثی جائیداد کو تقسیم کرنا پسندنہ فرمایا بلکہ باغات کو انصار کے پاس رہنے دیا البتہ محنت وغیرہ مہاجرین نے اپنے ذمے لے لی۔ پھر پیدا وار نصف نصف پر تقسیم ہو جاتی۔