1۔ انصار نے رسول اللہ ﷺ کو رہنے کے لیے جگہ دی اور اسلام کی مدد کی۔ ان کا یہ وقت گزرچکا ہے کوئی دوسرا اس سعادت میں ان کے ساتھ شریک نہیں ہے اور نہ کوئی ان سے سبقت کر سکتا ہے۔ ان میں سے جو بھی فوت ہو گا اس کی جگہ کبھی پر نہ ہوگی لہٰذا وہ کم ہوتے رہیں گے اور دوسرے لوگ زیادہ ہوتے جائیں گے حتی کہ انصار کھانے میں نمک کے برابر رہ جائیں گے۔ ان کے مقابلے میں مہاجرین حکمران ہوں گے انھیں آپ نے وصیت فرمائی کہ انصار سے احسان کرتے رہنا اور انھیں تکلیف پہنچانے سے گریز کرنا۔ بعض لوگوں نے اس حدیث سے یہ اخذ کیا ہے کہ انصار کو کبھی حکومت نہیں ملے گی لیکن یہ موقف واضح نہیں ہے۔2۔واقعہ یہ حدیث رسول اللہ ﷺ کا ایک عظیم معجزہ ہے کہ انصار دن بدن کم ہو رہے ہیں اگرچہ اس کا دعوی کرنے والے بہت ہیں لیکن دعوی کرنے والوں کے پاس انصار ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ واللہ المستعان۔
نوٹ:۔ امام بخاری ؒ نے ان احادیث کے ذریعے سے انصار کے مجموعی کردار کو نمایاں کیا ہے اس سے یہ انداز ہ کیا جا سکتا ہے کہ انصار نے کسی طرح بڑھ چڑھ کر اپنے مہاجرین بھائیوں کا احترام کیا اور کس قدر محبت خلوص ایثار اور قربانی سے کام لیا۔ نیز مہاجرین بھی اس نوازش و اکرام کی کتنی قدر کرتے تھے چنانچہ انھوں نے بھی انصار کی پیش کش سے کوئی غلط فائدہ نہیں اٹھایا بلکہ ان سے صرف اتنا ہی حاصل کیا جس سے وہ اپنی ٹوٹی ہوئی معیشت کو سہارا دے سکتے تھے۔ واقعی رسول اللہ ﷺ کے قائم کردہ سلسلہ مؤاخات سے دور جاہلیت کے جانبدار نہ رویے رنگ و نسل اور وطن کے امتیازات مٹ گئے بلندی و پستی کا معیار انسانیت و تقوی کے علاوہ اور کوئی چیز نہ تھا۔ واقعی یہ بھائی چارہ رسول اللہ ﷺ کی ایک نادر حکمت عملی حکیمانہ سیاست اور مسلمانوں کو درپیش مسائل کا حل تھا۔ اس سلسلے میں انصار کا تعاون ایک ایسی مثال ہے جس کی مثال تاریخ عالم پیش کرنے سے قاصر ہے۔ اللہ تعالیٰ ان پاکیزہ ہستیوں کو اپنے ہاں بلند مقام عطا فرمائے اور قیامت کے دن ہمیں ان کی رفاقت نصیب کرے۔ آمین۔