تشریح:
1۔ قسامت کے احکام ومسائل ہم کتاب الدیات میں بیان کریں گے۔ بہر حال قسامت امور جاہلیہ میں سے ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے بلا ترمیم و اضافہ برقرار رکھا بلکہ اپنے عہد مبارک میں اس پر عمل بھی کیا لیکن دیت اپنی طرف سے دے دی تاکہ مقتول کا خون ضائع نہ ہو۔ (صحیح البخاري، الدیات، حدیث:6898)
2۔ مذکورہ واقعے میں قسم دینے والوں نے مقام ابراہیم اور حجراسود کے درمیان کھڑے ہو کر قسمیں اٹھائیں۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں دنیا میں سزادی کہ ان میں سے کوئی بھی بچ نہ سکا۔
3۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ کچھ لوگوں نے خانہ کعبہ میں قسامت کے طور پر قسمیں اٹھائیں پھر وہ ایک پہاڑ کے نیچے جا کر ٹھہرے تو ایک پتھر اوپر سے گرا جس سے دب کر سب مر گئے۔ جھوٹی قسم اٹھانا پھر اس کام کے لیے مساجد کو استعمال کرنا بے حد خطرناک ہے۔ کتنے لوگ آج بھی دیکھے جاتے ہیں کہ انھوں نے یہ حرکت کی، پھر وہ تباہ و برباد ہوگئے، لہٰذا ہر مسلمان کو اس طرح کے اقدام سے بچنا چاہیے۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ مرنے والوں کی تمام جائیداد حویطب کو ملی جس کی ماں کے کہنے سے ابو طالب نے اسے قسم دینے سے مستثنیٰ کردیا تھا اس لیے مکہ مکرمہ میں سب سے زیادہ صاحب جائیداد حویطب ہی تھا۔ حضرت ابن عباس ؓ اگرچہ اس وقت پیدا بھی نہیں ہوئے تھے جب یہ واقعہ پیش آیا تاہم انھوں نے یہ واقعہ معتبر لوگوں سے سنا اور بیان کیا۔ (فتح الباري:199/7)