قسم الحديث (القائل): موقوف ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: کِتَابُ مَنَاقِبِ الأَنْصَارِ (بَاب القَسَامَةِ فِي الجَاهِلِيَّةِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

3845. حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ حَدَّثَنَا قَطَنٌ أَبُو الْهَيْثَمِ حَدَّثَنَا أَبُو يَزِيدَ الْمَدَنِيُّ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ إِنَّ أَوَّلَ قَسَامَةٍ كَانَتْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ لَفِينَا بَنِي هَاشِمٍ كَانَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ اسْتَأْجَرَهُ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ مِنْ فَخِذٍ أُخْرَى فَانْطَلَقَ مَعَهُ فِي إِبِلِهِ فَمَرَّ رَجُلٌ بِهِ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ قَدْ انْقَطَعَتْ عُرْوَةُ جُوَالِقِهِ فَقَالَ أَغِثْنِي بِعِقَالٍ أَشُدُّ بِهِ عُرْوَةَ جُوَالِقِي لَا تَنْفِرُ الْإِبِلُ فَأَعْطَاهُ عِقَالًا فَشَدَّ بِهِ عُرْوَةَ جُوَالِقِهِ فَلَمَّا نَزَلُوا عُقِلَتْ الْإِبِلُ إِلَّا بَعِيرًا وَاحِدًا فَقَالَ الَّذِي اسْتَأْجَرَهُ مَا شَأْنُ هَذَا الْبَعِيرِ لَمْ يُعْقَلْ مِنْ بَيْنِ الْإِبِلِ قَالَ لَيْسَ لَهُ عِقَالٌ قَالَ فَأَيْنَ عِقَالُهُ قَالَ فَحَذَفَهُ بِعَصًا كَانَ فِيهَا أَجَلُهُ فَمَرَّ بِهِ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ فَقَالَ أَتَشْهَدُ الْمَوْسِمَ قَالَ مَا أَشْهَدُ وَرُبَّمَا شَهِدْتُهُ قَالَ هَلْ أَنْتَ مُبْلِغٌ عَنِّي رِسَالَةً مَرَّةً مِنْ الدَّهْرِ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَكَتَبَ إِذَا أَنْتَ شَهِدْتَ الْمَوْسِمَ فَنَادِ يَا آلَ قُرَيْشٍ فَإِذَا أَجَابُوكَ فَنَادِ يَا آلَ بَنِي هَاشِمٍ فَإِنْ أَجَابُوكَ فَسَلْ عَنْ أَبِي طَالِبٍ فَأَخْبِرْهُ أَنَّ فُلَانًا قَتَلَنِي فِي عِقَالٍ وَمَاتَ الْمُسْتَأْجَرُ فَلَمَّا قَدِمَ الَّذِي اسْتَأْجَرَهُ أَتَاهُ أَبُو طَالِبٍ فَقَالَ مَا فَعَلَ صَاحِبُنَا قَالَ مَرِضَ فَأَحْسَنْتُ الْقِيَامَ عَلَيْهِ فَوَلِيتُ دَفْنَهُ قَالَ قَدْ كَانَ أَهْلَ ذَاكَ مِنْكَ فَمَكُثَ حِينًا ثُمَّ إِنَّ الرَّجُلَ الَّذِي أَوْصَى إِلَيْهِ أَنْ يُبْلِغَ عَنْهُ وَافَى الْمَوْسِمَ فَقَالَ يَا آلَ قُرَيْشٍ قَالُوا هَذِهِ قُرَيْشٌ قَالَ يَا آلَ بَنِي هَاشِمٍ قَالُوا هَذِهِ بَنُو هَاشِمٍ قَالَ أَيْنَ أَبُو طَالِبٍ قَالُوا هَذَا أَبُو طَالِبٍ قَالَ أَمَرَنِي فُلَانٌ أَنْ أُبْلِغَكَ رِسَالَةً أَنَّ فُلَانًا قَتَلَهُ فِي عِقَالٍ فَأَتَاهُ أَبُو طَالِبٍ فَقَالَ لَهُ اخْتَرْ مِنَّا إِحْدَى ثَلَاثٍ إِنْ شِئْتَ أَنْ تُؤَدِّيَ مِائَةً مِنْ الْإِبِلِ فَإِنَّكَ قَتَلْتَ صَاحِبَنَا وَإِنْ شِئْتَ حَلَفَ خَمْسُونَ مِنْ قَوْمِكَ إِنَّكَ لَمْ تَقْتُلْهُ فَإِنْ أَبَيْتَ قَتَلْنَاكَ بِهِ فَأَتَى قَوْمَهُ فَقَالُوا نَحْلِفُ فَأَتَتْهُ امْرَأَةٌ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ كَانَتْ تَحْتَ رَجُلٍ مِنْهُمْ قَدْ وَلَدَتْ لَهُ فَقَالَتْ يَا أَبَا طَالِبٍ أُحِبُّ أَنْ تُجِيزَ ابْنِي هَذَا بِرَجُلٍ مِنْ الْخَمْسِينَ وَلَا تُصْبِرْ يَمِينَهُ حَيْثُ تُصْبَرُ الْأَيْمَانُ فَفَعَلَ فَأَتَاهُ رَجُلٌ مِنْهُمْ فَقَالَ يَا أَبَا طَالِبٍ أَرَدْتَ خَمْسِينَ رَجُلًا أَنْ يَحْلِفُوا مَكَانَ مِائَةٍ مِنْ الْإِبِلِ يُصِيبُ كُلَّ رَجُلٍ بَعِيرَانِ هَذَانِ بَعِيرَانِ فَاقْبَلْهُمَا عَنِّي وَلَا تُصْبِرْ يَمِينِي حَيْثُ تُصْبَرُ الْأَيْمَانُ فَقَبِلَهُمَا وَجَاءَ ثَمَانِيَةٌ وَأَرْبَعُونَ فَحَلَفُوا قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا حَالَ الْحَوْلُ وَمِنْ الثَّمَانِيَةِ وَأَرْبَعِينَ عَيْنٌ تَطْرِفُ

مترجم:

3845.

حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ دور جاہلیت میں سب سے پہلا قسامت کا واقعہ ہمارے قبیلے بنو ہاشم میں ہوا تھا۔ بنو ہاشم کے ایک شخص کو قریش کی دوسری شاخ کے ایک شخص نے اجرت پر رکھا۔ اب یہ ہاشمی نوکر اپنے صاحب کے ساتھ اس کے اونٹ لے کر روانہ ہوا۔ راستے میں اس نوکر کے پاس سے ایک دوسرا ہاشمی شخص گزرا جس کی بوری کا بندھن ٹوٹ گیا تھا۔ اس نے کہا کہ مجھے رسی دے دو جس کے ساتھ میں بوری کا منہ باندھ دوں تاکہ اونٹ (بدک کر) بھاگ نہ جائیں۔ اس نے اسے رسی دے دی جس کے ساتھ اس شخص نے اپنی بوری کا منہ باندھ لیا۔ جب انہوں نے ایک جگہ پڑاؤ کیا تو ایک اونٹ کے علاوہ سب اونٹوں کو باندھ دیا گیا۔ جس شخص نے ہاشمی کو نوکر رکھا تھا اس نے کہا: اس اونٹ کا کیا حال ہے کہ اسے دوسرے اونٹوں کی طرح باندھا نہیں گیا؟ ہاشمی نے کہا: اس کی رسی نہیں ہے۔ اس شخص نے کہا: تو اس کی رسی کہاں ہے؟ پھر اسے لاٹھی سے مارا کہ اس کی موت واقع ہو گئی۔ پھر اس کے پاس سے ایک یمنی شخص گزرا تو زخمی ہاشمی نے اس سے کہا: کیا تم حج کے لیے جا رہے ہو؟ اس نے کہا: نہیں، میں حج کو نہیں جا رہا بلکہ کبھی چلا جاتا ہوں۔ ہاشمی نے کہا: جس سال تم حج کے لیے جاؤ تو کیا وہاں میرا پیغام پہنچا دو گے؟ یمنی نے کہا: ہاں۔ ہاشمی نے کہا: جب تم حج کے موسم میں جاؤ تو بآواز بلند کہو: آل قریش! جب وہ تمہیں جواب دیں تو کہو: اے آل بنو ہاشم! اگر وہ تمہیں جواب دیں تو ابوطالب کا پوچھو اور ان سے میرا بیان کرو کہ فلاں شخص نے مجھے ایک رسی کے عوض قتل کر دیا ہے۔ اس وصیت کے بعد وہ نوکر فوت ہو گیا۔ جس شخص نے اسے اجرت پر لیا تھا جب وہ واپس آیا تو ابوطالب اس کے پاس آئے اور کہا کہ ہمارے ساتھی کا کیا حال ہے؟ اس نے کہا: وہ بیمار ہو گیا تھا۔ میں نے خدمت گزاری میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی لیکن وہ مر گیا تو میں نے اسے دفن کر دیا۔ ابوطالب نے کہا: تم سے یہی توقع تھی۔ تھوڑا ہی وقت گزرا ہو گا کہ وہ شخص آ گیا جسے اس نے وصیت کی تھی کہ وہ اس کا پیغام پہنچائے جبکہ وہ حج کے موسم میں آئے۔ اس نے آتے ہی کہا: اے آل قریش! لوگوں نے کہا: قریش یہ ہیں۔ پھر اس نے کہا: اے ل بنو ہاشم! لوگوں نے کہا: یہ بنو ہاشم ہیں۔ اس نے کہا: ابوطالب کہاں ہے؟ لوگوں نے کہا: یہ ابوطالب ہیں۔ اس نے کہا: مجھے فلاں شخص نے کہا تھا کہ میں تمہیں پیغام دوں کہ فلاں شخص نے اسے ایک رسی کے بدلے قتل کر دیا ہے۔ اب ابوطالب اس شخص کے پاس گئے اور اسے کہا: تین چیزوں میں سے ایک کا انتخاب کر لو: اگر تم چاہو تو سو اونٹ بطور دیت ادا کرو کیونکہ تو نے ہمارے آدمی کو قتل کیا ہے۔ اوراگرچاہو تو تمہاری قوم کے پچاس آدمی اس کی قسم اٹھا لیں کہ تم نے اسے قتل نہیں کیا۔ اگر تم اس پر تیار نہیں ہو تو ہم تجھے اس کے بدلے قتل کر دیں گے۔ وہ شخص اپنی قوم کے پاس آیا تو وہ اس بات کے لیے تیار ہو گئے کہ ہم قسم اٹھا لیں گے۔ اس دوران میں بنو ہاشم کی ایک عورت ابوطالب کے پاس آئی جو اسی قبیلے کے ایک شخص کی بیوی تھی اور اس کے بطن سے اس شخص کا ایک بچہ بھی تھا، اس نے کہا: ابوطالب! میں یہ چاہتی ہوں کہ پچاس آدمیوں میں سے میرے اس بچے کو معاف کر دیں اور جہاں قسمیں لی جاتی ہیں، اس سے وہاں قسم نہ لی جائے۔ ابوطالب نے اسے معاف کر دیا۔ اس کے بعد ان میں سے ایک اور شخص آیا اور کہا: ابوطالب! آپ نے سو اونٹوں کے پچاس آدمیوں سے قسم طلب کی ہے، اس طرح ہر شخص کے ذمے دو اونٹ پڑتے ہیں۔ میری طرف سے یہ دو اونٹ قبول کریں اور مجھے اس مقام پر قسم کے لیے مجبور نہ کریں جہاں قسم لی جاتی ہے۔ ابوطالب نے اسے بھی منظور کر لیا۔ اس کے بعد بقیہ اڑتالیس آدمی آئے اور انہوں نے قسمیں اٹھائیں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! ابھی اس واقعے کو پور سال بھی نہ گزرا تھا کہ ان اڑتالیس آدمیوں میں سے ایک شخص بھی ایسا نہیں رہا جو آنکھ ہلاتا ہو، یعنی وہ سب صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔