تشریح:
1۔اس حدیث میں ان لوگوں کی تردید مقصود ہے جو کہتے ہیں کہ معراج خواب کی حالت میں ہواتھا۔ حدیث رویاء کو عین سے مقید کرنے کا یہ اشارہ ہے کہ رؤیت سے مراد حالت بیداری میں دیکھنا ہے۔ 2۔اس میں لوگوں کا امتحان تھا چنانچہ کچھ لوگ اس بات کو ناممکن خیال کرتے تھے کہ ایک رات میں بیت المقدس کیسے پہنچا جا سکتا ہے نیز مشرکین کے لیے یہ بات بھی باعث فتنہ تھی کہ زقوم کا درخت آگ میں پروان چڑھے گا۔ حالانکہ آگ تو درخت کو جلا کر ختم کر ڈالتی ہے۔ یہ تھوہر اہل جہنم کا کھانا ہوگا جو پیٹ میں گرم پانی کی طرح کھولے گا۔(الدخان:44۔43) تھوہر کا درخت اگرچہ دنیاوی تھوہر کی مانند ہوگا مگر زہر اور تلخی میں اس قدر خطرناک ہوگا کہ اہل دوزخ کے پیٹ اور ان کی آنتوں کو پھاڑ دے گا اس کے پتے اژد ہے ساپنوں کے پھنوں کی طرح ہوں گے جس کی صراحت قرآن میں ہے۔ (الصفت:37۔64)