Sahi-Bukhari:
Belief
(Chapter: Religion is very easy)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
جیسا کہ رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے کہ اللہ کو سب سے زیادہ وہ دین پسند ہے جو سیدھا اور سچا ہو۔ ( اور یقینا وہ دین اسلام ہے سچ ہے ان الدین عنداللہ الاسلام
39.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، نبی ﷺ نے فرمایا: ’’بےشک دین اسلام بہت آسان ہے۔ اور جو شخص دین میں سختی کرے گا تو دین اس پر غالب آ جائے گا، اس لیے میانہ روی اختیار کرو اور (اعتدال کے ساتھ) قریب رہو اور خوش ہو جاؤ۔ صبح اور دوپہر کے بعد اور کچھ رات میں عبادت کرنے سے مدد حاصل کرو۔‘‘
تشریح:
1۔ سابقہ ادیان کے مقابلے میں یہ دین انتہائی آسان ہے۔ اس میں ان پا بندیوں کو اٹھالیا گیا ہے جو پہلے لوگوں پر عائد تھیں جیسا کہ بنی اسرائیل میں توبہ کی قبولیت خود کو قتل کرنے پر منحصر تھی۔ لیکن اس امت کی توبہ دل کی شرمندگی اور اعمال صالحہ کے عزم پر مبنی ہے۔ (فتح الباري: 128/1) 2۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ایک مسلمان کو راحت و سکون کے اوقات میں نہایت نشاط اور مستقل مزاجی سے فریضہ عبادت ادا کرنا چاہیے تاکہ اس کا عمل مستقل بنیادوں پر قائم رہے کیونکہ تھوڑا سا عمل استقلال و ثبات سے کرنا اس عمل کثیر سے کہیں بڑھ کر ہے۔ جس میں انقطاع آجائے۔ (شرح الکرماني:162/1) 3۔ عزیمت اور رخصت دونوں چیزیں دین میں شامل ہیں اسلام کا تقاضا ہے کہ دونوں پر عمل ہو۔ عزیمت کی حالت میں عزیمت پر عمل کیا جائے اور رخصت کے موقع پر اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے ہر ہر موقع پر رخصت کی تلاش بے دینی ہے جبکہ ہر وقت عزیمت کی تمنا بھی حد سے تجاوز ہے ایسا کرنے میں ناکامی کا اندیشہ اور نامرادی کا خطرہ رہتا ہے جیسا کہ پانی کے استعمال پر کوئی عذر مانع ہو تو تیمم کی اجازت ہے ایسے موقع پر پانی کے استعمال پر اصرار کرنا دین میں تشدد ہے جسے اسلام نے پسند نہیں کیا۔ اس حدیث میں میانہ روی کی تعلیم دی گئی ہے۔ ( فتح الباري:128/1) 4۔ استقامت اور میانہ روی کا راستہ بھی انتہائی دشوار ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: ’’سورہ ہود نے مجھے بوڑھا کردیا ہے۔‘‘ ( جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث:3297) کیونکہ اس سورت کی آیت نمبر112میں آپ کو استقامت کا حکم دیا گیا ہے یہ ایسی ذمے داری تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس نے مجھے قبل از وقت بوڑھا کردیا ہے۔‘‘اس لیے حدیث میں ایک دوسری صورت بتائی گئی ہے کہ اگر پورے طور پر سداد اوراستقامت حاصل نہ ہو تو کم ازکم اس کے قریب قریب تو رہو۔ اسی طرح عمل کی توفیق پر خوش ہو جاؤ اور یہ خوشی صرف استقامت ہی میں نہیں بلکہ اس کے قریب رہنے سے بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔ بشارت حوصلہ بڑھانے کا ایک طریق ہے۔ اس سے عابد کی ہمت بلند ہوتی ہے اور اس کے عزم میں ایک نیا ولولہ اور نئی طاقت پیدا ہو جاتی ہے۔ 5۔ مشکل کام کو آسان بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ اسے مختلف اوقات نشاط پر تقسیم کردیا جائے مثلاً :اس کا کچھ حصہ صبح کچھ بعد از زوال آفتاب اور کچھ رات کے آخری حصے میں سرانجام دیا جائے کیونکہ یہ اوقات اللہ کی حمد و ثنا اور تسبیح و تہلیل کرنے کے ہیں ان کاموں کے بجا لانے سے دل میں طاقت پیدا ہوتی ہے چونکہ دل انسانی اعضاء کا بادشاہ ہے اگر اس میں طاقت ہوگی تو دیگر اعضاء اپنے اپنے کام میں چست رہیں گے۔ اس طرح کئی اور مشکل کام کرنے میں آسانی رہتی ہے۔ (فتح الباري: 128/1)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
39
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
39
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
39
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
39
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے وحی کی عظمت وصداقت ثابت کرنے کے بعد ضروری خیال کیا کہ اب اساس دین یعنی ایمان کی وضاحت کی جائے جو عبادات کی صحت وقبولیت کے لیے مدار اور اخروی نجات کے لیے شرط اول ہے۔ چنانچہ کتاب الایمان میں ایمان ہی سے متعلقہ احادیث ہوں گی۔لفظ ایمان امن سے مشتق ہے جس کے لغوی معنی امن واطمینان ہیں، اسی لغوی معنی کے پیش نظر مومن اسے کہاجاتا ہے جس سے لوگ اپنی جان ومال کے متعلق سکون و اطمینان محسوس کریں۔حدیث میں ہے۔(۔۔۔۔۔مَنْ أَمِنَهُ الْمُؤْمِنُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ )( مسند احمد 2/206۔)"(مومن وہ ہے)جس سے دوسرے مومن اپنی جان و مال کے متعلق بے خوف ہوں۔"اسی طرح یہ تصدق کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِينَ)( المومنون:23۔38۔)"ہم اس کی تصدیق کرنے والے نہیں ہیں۔" کسی کی بات پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اسےاپنی تکذیب کی طرف سے مطمئن کرتے ہیں اور اس کی ا مانت ودیانت پر اپنے اعتماد ووثوق کا اظہار کرتے ہیں۔ایمان کی شرعی تعریف یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ بھی اپنے رب کی طرف سے اصول وراکان اور احکام ومسائل لے کر آئے ہیں ان کی تصدیق کی جائے اور ان کی سچائی کو دل میں بٹھایا جائے۔، پھر زبان سے اس کی تصدیق کا اظہار اور اپنے دیگر اعضاء سے اس کا عملی ثبوت مہیا کیا جائے۔ گویا اس کے لیے تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔ دل سے تصدیق زبان سے اقرار اور دیگراعضاء سے التزام عمل ومتابعت یہود کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت و تصدیق تھی اور منافقین میں بظاہر التزام عمل و متابعت بھی موجود تھا اس کے باوجود مومن نہیں ہیں، لہٰذا تصدیق میں کوتاہی کا مرتکب منافق اور اقرار سے پہلو تہی کفر کا باعث ہے جبکہ عملی کوتا ہی کا مرتکب فاسق ہے۔ اگر انکار کی وجہ سے بدعملی کا شکار ہے تو بھی اس کے کفر میں کوئی شبہ نہیں ایسے حالات میں تصدیق واقرار کا کوئی فائدہ نہیں۔سلف صالحین کا نقطہ نظر بھی یہی ہے کہ ایمان کے متعلق جو آیات واحادیث وارد ہیں ان کی اتباع کو کافی خیال کیا جائے۔ان مباحث کلامیہ کی طرف قطعی التفات نہ کیا جائے جو متاخرین کے"دست ہنر شناس"کا کرشمہ ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ چونکہ سر رشتہ محدثین سے منسلک ہیں، اس لیے انھوں نے ایمان سے متعلق وارد شدہ قرآنی آیات اور احادیث و آثار کے پیش نظر اس موقف کواختیار کیا ہے کہ ایمان بسیط نہیں بلکہ تصدیق قلبی اقرار لسانی اور عمل بدنی سے مرکب ہے۔ تکون کے یہ تینوں زاویے اس قدر لازم ملزوم اور باہم مربوط ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کو الگ کر دیا جائے تو ایسا حقیقی ایمان باقی نہیں رہتا جس سے اخروی نجات کا حصول ممکن ہو۔ اس کے بعض اجزاء اساسی اور بنیادی ہیں جنھیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ارکان اسلام کے نام سے تعبیر کر کے انہیں اولیت دی ہے اور کچھ اجزاء کمال ہیں جنھیں "امور ایمان" کا عنوان دے کر آخر میں بیان کیا ہے قارئین کرام اس تفصیل کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب الایمان کا مطالعہ کریں۔
تمہید باب
اعمال مذکورہ سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ دین میں بڑی مشقت ہے، جیسے روزہ رات کا قیام اور لیلۃ القدر کی تلاش وغیرہ ،ان سے معلوم ہوتا ہے کہ دین میں مشقت مطلوب ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہ وضاحت کرنا چاہتے ہیں کہ اعمال میں سختی مطلوب نہیں بلکہ اعتدال کی رعایت ملحوظ ہے، اس لیے اللہ کے نزدیک وہ دین پسندیدہ ہے جس میں اللہ سے خالص تعلق کی تعلیم ہو اور جس کے اعمال میں (يُسر) اور سہولت ہو، اور یہ صرف دین اسلام میں ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ ۚ مِّلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ )"اس نے دین میں تم پر کوئی سختی نہیں رکھی بلکہ یہ تو تمھارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ملت ہے۔"( الحج 22۔78۔)باب میں مذکورہ حدیث کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب "الادب المفرد"( الادب المفرد حدیث:287۔ومسند احمد 6/233۔)میں موصولاً بیان کیا ہے۔اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے بھی مسند میں بیان کیا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی شرط کے مطابق نہ تھی اس لیے عنوان میں اسے۔ذکر فرمایا (فتح الباری 1/127۔)
جیسا کہ رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے کہ اللہ کو سب سے زیادہ وہ دین پسند ہے جو سیدھا اور سچا ہو۔ ( اور یقینا وہ دین اسلام ہے سچ ہے ان الدین عنداللہ الاسلام
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، نبی ﷺ نے فرمایا: ’’بےشک دین اسلام بہت آسان ہے۔ اور جو شخص دین میں سختی کرے گا تو دین اس پر غالب آ جائے گا، اس لیے میانہ روی اختیار کرو اور (اعتدال کے ساتھ) قریب رہو اور خوش ہو جاؤ۔ صبح اور دوپہر کے بعد اور کچھ رات میں عبادت کرنے سے مدد حاصل کرو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ سابقہ ادیان کے مقابلے میں یہ دین انتہائی آسان ہے۔ اس میں ان پا بندیوں کو اٹھالیا گیا ہے جو پہلے لوگوں پر عائد تھیں جیسا کہ بنی اسرائیل میں توبہ کی قبولیت خود کو قتل کرنے پر منحصر تھی۔ لیکن اس امت کی توبہ دل کی شرمندگی اور اعمال صالحہ کے عزم پر مبنی ہے۔ (فتح الباري: 128/1) 2۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ایک مسلمان کو راحت و سکون کے اوقات میں نہایت نشاط اور مستقل مزاجی سے فریضہ عبادت ادا کرنا چاہیے تاکہ اس کا عمل مستقل بنیادوں پر قائم رہے کیونکہ تھوڑا سا عمل استقلال و ثبات سے کرنا اس عمل کثیر سے کہیں بڑھ کر ہے۔ جس میں انقطاع آجائے۔ (شرح الکرماني:162/1) 3۔ عزیمت اور رخصت دونوں چیزیں دین میں شامل ہیں اسلام کا تقاضا ہے کہ دونوں پر عمل ہو۔ عزیمت کی حالت میں عزیمت پر عمل کیا جائے اور رخصت کے موقع پر اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے ہر ہر موقع پر رخصت کی تلاش بے دینی ہے جبکہ ہر وقت عزیمت کی تمنا بھی حد سے تجاوز ہے ایسا کرنے میں ناکامی کا اندیشہ اور نامرادی کا خطرہ رہتا ہے جیسا کہ پانی کے استعمال پر کوئی عذر مانع ہو تو تیمم کی اجازت ہے ایسے موقع پر پانی کے استعمال پر اصرار کرنا دین میں تشدد ہے جسے اسلام نے پسند نہیں کیا۔ اس حدیث میں میانہ روی کی تعلیم دی گئی ہے۔ ( فتح الباري:128/1) 4۔ استقامت اور میانہ روی کا راستہ بھی انتہائی دشوار ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: ’’سورہ ہود نے مجھے بوڑھا کردیا ہے۔‘‘ ( جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث:3297) کیونکہ اس سورت کی آیت نمبر112میں آپ کو استقامت کا حکم دیا گیا ہے یہ ایسی ذمے داری تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس نے مجھے قبل از وقت بوڑھا کردیا ہے۔‘‘اس لیے حدیث میں ایک دوسری صورت بتائی گئی ہے کہ اگر پورے طور پر سداد اوراستقامت حاصل نہ ہو تو کم ازکم اس کے قریب قریب تو رہو۔ اسی طرح عمل کی توفیق پر خوش ہو جاؤ اور یہ خوشی صرف استقامت ہی میں نہیں بلکہ اس کے قریب رہنے سے بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔ بشارت حوصلہ بڑھانے کا ایک طریق ہے۔ اس سے عابد کی ہمت بلند ہوتی ہے اور اس کے عزم میں ایک نیا ولولہ اور نئی طاقت پیدا ہو جاتی ہے۔ 5۔ مشکل کام کو آسان بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ اسے مختلف اوقات نشاط پر تقسیم کردیا جائے مثلاً :اس کا کچھ حصہ صبح کچھ بعد از زوال آفتاب اور کچھ رات کے آخری حصے میں سرانجام دیا جائے کیونکہ یہ اوقات اللہ کی حمد و ثنا اور تسبیح و تہلیل کرنے کے ہیں ان کاموں کے بجا لانے سے دل میں طاقت پیدا ہوتی ہے چونکہ دل انسانی اعضاء کا بادشاہ ہے اگر اس میں طاقت ہوگی تو دیگر اعضاء اپنے اپنے کام میں چست رہیں گے۔ اس طرح کئی اور مشکل کام کرنے میں آسانی رہتی ہے۔ (فتح الباري: 128/1)
ترجمۃ الباب:
فرمان نبوی ہے: "اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب دین، دین حنیف ہے، جس کی بنیاد سہولت پر رکھی گئی ہے۔"
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبدالسلام بن مطہر نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم کو عمر بن علی نے معن بن محمد غفاری سے خبر دی، وہ سعید بن ابوسعید مقبری سے، وہ ابوہریرہؓ سے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: ’’بے شک دین آسان ہے اور جو شخص دین میں سختی اختیار کرے گا تو دین اس پر غالب آ جائے گا (اور اس کی سختی نہ چل سکے گی) پس (اس لیے) اپنے عمل میں پختگی اختیار کرو۔ اور جہاں تک ممکن ہو میانہ روی برتو اور خوش ہو جاؤ ( کہ اس طرز عمل سے تم کو دارین کے فوائد حاصل ہوں گے) اور صبح اور دوپہر اور شام اور کسی قدر رات میں (عبادت سے) مدد حاصل کرو۔ (نماز پنج وقتہ بھی مراد ہو سکتی ہے کہ پابندی سے ادا کرو۔)‘‘
حدیث حاشیہ:
سورۃ حج میں اللہ پاک نے فرمایا ہے: ﴿وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ ۚ مِّلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ ۚ﴾ (الحج: 78) یعنی اللہ نے دنیا میں تم پر کوئی سختی نہیں رکھی بلکہ یہ تمہارے باپ حضرت ابراہیمؑ کی ملت ہے۔ آیات اور احادیث سے روز روشن کی طرح واضح ہے کہ اسلام ہر طرح سے آسان ہے۔ اس کے اصولی اور فروعی احکام اور جس قدر اوامر و نواہی ہیں سب میں اسی حقیقت کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے مگرصد افسوس کہ بعد کے زمانوں میں خودساختہ ایجادات سے اسلام کو اس قدر مشکل بنالیا گیا ہے کہ خدا کی پناہ۔ اللہ نیک سمجھ دے۔ آمین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The Prophet (ﷺ) said, "Religion is very easy and whoever overburdens himself in his religion will not be able to continue in that way. So you should not be extremists, but try to be near to perfection and receive the good tidings that you will be rewarded; and gain strength by worshipping in the mornings, the nights." (See Fath-ul-Bari, Page 102, Vol 1).