قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: کِتَابُ مَنَاقِبِ الأَنْصَارِ (بَابُ هِجْرَةِ النَّبِيِّ ﷺ وَأَصْحَابِهِ إِلَى المَدِينَةِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدٍ، وَأَبُو هُرَيْرَةَ ؓ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ لَوْلاَ الهِجْرَةُ لَكُنْتُ امْرَأً مِنَ الأَنْصَارِ وَقَالَ أَبُو مُوسَى، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «رَأَيْتُ فِي المَنَامِ أَنِّي أُهَاجِرُ مِنْ مَكَّةَ إِلَى أَرْضٍ بِهَا نَخْلٌ، فَذَهَبَ وَهَلِي إِلَى أَنَّهَا اليَمَامَةُ، أَوْ هَجَرُ، فَإِذَا هِيَ المَدِينَةُ يَثْرِبُ»

3911. حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ صُهَيْبٍ حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ أَقْبَلَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمَدِينَةِ وَهُوَ مُرْدِفٌ أَبَا بَكْرٍ وَأَبُو بَكْرٍ شَيْخٌ يُعْرَفُ وَنَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَابٌّ لَا يُعْرَفُ قَالَ فَيَلْقَى الرَّجُلُ أَبَا بَكْرٍ فَيَقُولُ يَا أَبَا بَكْرٍ مَنْ هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْكَ فَيَقُولُ هَذَا الرَّجُلُ يَهْدِينِي السَّبِيلَ قَالَ فَيَحْسِبُ الْحَاسِبُ أَنَّهُ إِنَّمَا يَعْنِي الطَّرِيقَ وَإِنَّمَا يَعْنِي سَبِيلَ الْخَيْرِ فَالْتَفَتَ أَبُو بَكْرٍ فَإِذَا هُوَ بِفَارِسٍ قَدْ لَحِقَهُمْ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذَا فَارِسٌ قَدْ لَحِقَ بِنَا فَالْتَفَتَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ اللَّهُمَّ اصْرَعْهُ فَصَرَعَهُ الْفَرَسُ ثُمَّ قَامَتْ تُحَمْحِمُ فَقَالَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ مُرْنِي بِمَا شِئْتَ قَالَ فَقِفْ مَكَانَكَ لَا تَتْرُكَنَّ أَحَدًا يَلْحَقُ بِنَا قَالَ فَكَانَ أَوَّلَ النَّهَارِ جَاهِدًا عَلَى نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ آخِرَ النَّهَارِ مَسْلَحَةً لَهُ فَنَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَانِبَ الْحَرَّةِ ثُمَّ بَعَثَ إِلَى الْأَنْصَارِ فَجَاءُوا إِلَى نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ فَسَلَّمُوا عَلَيْهِمَا وَقَالُوا ارْكَبَا آمِنَيْنِ مُطَاعَيْنِ فَرَكِبَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ وَحَفُّوا دُونَهُمَا بِالسِّلَاحِ فَقِيلَ فِي الْمَدِينَةِ جَاءَ نَبِيُّ اللَّهِ جَاءَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَشْرَفُوا يَنْظُرُونَ وَيَقُولُونَ جَاءَ نَبِيُّ اللَّهِ جَاءَ نَبِيُّ اللَّهِ فَأَقْبَلَ يَسِيرُ حَتَّى نَزَلَ جَانِبَ دَارِ أَبِي أَيُّوبَ فَإِنَّهُ لَيُحَدِّثُ أَهْلَهُ إِذْ سَمِعَ بِهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ وَهُوَ فِي نَخْلٍ لِأَهْلِهِ يَخْتَرِفُ لَهُمْ فَعَجِلَ أَنْ يَضَعَ الَّذِي يَخْتَرِفُ لَهُمْ فِيهَا فَجَاءَ وَهِيَ مَعَهُ فَسَمِعَ مِنْ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ رَجَعَ إِلَى أَهْلِهِ فَقَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ بُيُوتِ أَهْلِنَا أَقْرَبُ فَقَالَ أَبُو أَيُّوبَ أَنَا يَا نَبِيَّ اللَّهِ هَذِهِ دَارِي وَهَذَا بَابِي قَالَ فَانْطَلِقْ فَهَيِّئْ لَنَا مَقِيلًا قَالَ قُومَا عَلَى بَرَكَةِ اللَّهِ فَلَمَّا جَاءَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ فَقَالَ أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ وَأَنَّكَ جِئْتَ بِحَقٍّ وَقَدْ عَلِمَتْ يَهُودُ أَنِّي سَيِّدُهُمْ وَابْنُ سَيِّدِهِمْ وَأَعْلَمُهُمْ وَابْنُ أَعْلَمِهِمْ فَادْعُهُمْ فَاسْأَلْهُمْ عَنِّي قَبْلَ أَنْ يَعْلَمُوا أَنِّي قَدْ أَسْلَمْتُ فَإِنَّهُمْ إِنْ يَعْلَمُوا أَنِّي قَدْ أَسْلَمْتُ قَالُوا فِيَّ مَا لَيْسَ فِيَّ فَأَرْسَلَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَقْبَلُوا فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا مَعْشَرَ الْيَهُودِ وَيْلَكُمْ اتَّقُوا اللَّهَ فَوَاللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ إِنَّكُمْ لَتَعْلَمُونَ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ حَقًّا وَأَنِّي جِئْتُكُمْ بِحَقٍّ فَأَسْلِمُوا قَالُوا مَا نَعْلَمُهُ قَالُوا لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَهَا ثَلَاثَ مِرَارٍ قَالَ فَأَيُّ رَجُلٍ فِيكُمْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ قَالُوا ذَاكَ سَيِّدُنَا وَابْنُ سَيِّدِنَا وَأَعْلَمُنَا وَابْنُ أَعْلَمِنَا قَالَ أَفَرَأَيْتُمْ إِنْ أَسْلَمَ قَالُوا حَاشَى لِلَّهِ مَا كَانَ لِيُسْلِمَ قَالَ أَفَرَأَيْتُمْ إِنْ أَسْلَمَ قَالُوا حَاشَى لِلَّهِ مَا كَانَ لِيُسْلِمَ قَالَ أَفَرَأَيْتُمْ إِنْ أَسْلَمَ قَالُوا حَاشَى لِلَّهِ مَا كَانَ لِيُسْلِمَ قَالَ يَا ابْنَ سَلَامٍ اخْرُجْ عَلَيْهِمْ فَخَرَجَ فَقَالَ يَا مَعْشَرَ الْيَهُودِ اتَّقُوا اللَّهَ فَوَاللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ إِنَّكُمْ لَتَعْلَمُونَ أَنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ وَأَنَّهُ جَاءَ بِحَقٍّ فَقَالُوا كَذَبْتَ فَأَخْرَجَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

حضرات عبد اللہ بن زید اور ابو ہریرہ ؓنے نبی کریم ﷺسے نقل کیا کہ اگر ہجرت کی فضیلت نہ ہوتی تومیں انصار کا ایک آدمی بن کر رہنا پسند کرتا اور حضرت ابو موسیٰؓ نے نبی کریم ﷺسے روایت کی کہ میں نے خواب دیکھا کہ میں مکہ سے ایک ایسی زمین کی طرف ہجرت کرکے جا رہا ہوں کہ جہاں کھجور کے باغات بکثرت ہیں ءمیرا ذہن اس سے یمامہ یا ہجر کی طرف گیا لیکن یہ سر زمین شہر ” یثربُ “ کی تھی ۔

3911.

حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ جب مدینہ طیبہ تشریف لائے تو آپ کے پیچھے (سواری پر) حضرت ابوبکر ؓ تھے۔ حضرت ابوبکر ؓ شکل و صورت میں بوڑھے تھے انہیں ہر ایک پہچانتا تھا لیکن نبی ﷺ نوجوان غیر معروف تھے۔ حضرت انس ؓ کا بیان ہے کہ راستے میں اگر کوئی حضرت ابوبکر ؓ سے ملاقات کرتا اور پوچھتا اے ابوبکر! یہ آدمی کون ہے جو تمہارے آگے ہے؟ وہ جواب دیتے: یہ شخص مجھے رستہ بتانے والا ہے۔ پوچھنے والا یہ سمجھتا ہے کہ وہ عام رستہ بتانے والا ہے، حالانکہ ابوبکر ؓ نے گوشہ چشم سے دیکھا تو ایک شخص جو گھوڑے پر سوار ہے وہ ان کے قریب آ پہنچا ہے۔ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! یہ سوار ہم تک پہنچ رہا ہے۔ نبی ﷺ نے اسے مڑ کر دیکھا تو فرمایا: ’’اے اللہ! اسے گرا دے۔‘‘ تو اسے گھوڑے نے گرا دیا۔ پھر وہ گھوڑا ہنہناتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا۔ اس شخص نے عرض کی: اللہ کے نبی! آپ جو چاہیں مجھے حکم دیں تعمیل ہو گی۔ آپ نے فرمایا: ’’اپنی جگہ ٹھہرے رہو اور کسی کو ہمارے پاس نہ پہنچنے دو۔‘‘  حضرت انس ؓ کا بیان ہے کہ وہ دن کے آغاز میں آپ کو پکڑنے والا تھا اور دن کے آخری حصے میں آپ کے لیے ہتھیار کا کام دینے لگا۔ بہرحال رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ کے پاس حرہ کی جانب فروکش ہوئے۔ پھر آپ نے انصار مدینہ کی طرف پیغام بھیجا تو وہ نبی ﷺ کی حفاظت کے لیے آ گئے۔ انہوں نے ان دونوں کو سلام کیا اور کہا: آپ امن و امان سے سوار رہیں۔ اب آپ کے حکم کی تعمیل کی جائے گی، چنانچہ نبی ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ سوار ہوئے اور انصار نے ہتھیار لے کر ان دونوں کو اپنے جلو میں لیا اور عازم مدینہ ہوئے۔ ادھر مدینہ طیبہ میں یہ نعرہ لگایا جا رہا تھا: اللہ کے نبی آ گئے! اللہ کے نبی تشریف لے آئے! لوگ اونچی جگہوں پر چڑھ کر آپ کو دیکھ رہے تھے اور کہتے تھے: اللہ کے نبی تشریف لے آئے! اللہ کے نبی آ گئے! اسی حال میں چلتے چلتے آپ حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کے مکان کے پاس اتر پڑے۔ آپ گھر والوں سے باتیں کر رہے تھے کہ اچانک حضرت عبداللہ بن سلام ؓ نے سنا جبکہ وہ اس وقت اپنے گھر والوں کے باغ میں کھجوریں چن رہے تھے، وہ جلدی سے جمع کی ہوئی کھجوریں ساتھ ہی لے کر آ گئے اور نبی ﷺ سے باتیں سن کر اپنے گھر واپس چلے گئے۔ اس دوران میں نبی ﷺ نے فرمایا: ’’ہمارے عزیزوں میں سے کس کا گھر قریب ہے؟‘‘  حضرت ابو ایوب انصاری ؓ نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ یہ میرا گھر ہے اور یہ میرا دروازہ ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’چلو اور ہمارے لیے قیلولہ کرنے کی جگہ تیار کرو۔‘‘  انہوں نے عرض کی: اللہ کی برکت سے آپ دونوں حضرات اٹھیں (قیلولے کا انتظام ہو چکا ہے)۔ پھر جب نبی ﷺ ان کے گھر میں داخل ہونے لگے تو حضرت عبداللہ بن سلام ؓ وہاں آ گئے اور عرض کی: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور حق کے ساتھ مبعوث ہوئے ہیں۔ یہودی جانتے ہیں کہ میں ان کا سردار ہوں اور سردار کا بیٹا ہوں، ان کا بڑا عالم اور بڑے عالم کا بیٹا ہوں۔ آپ انہیں بلا کر ان سے میرے متعلق پوچھیں لیکن انہیں یہ علم نہ ہونے پائے کہ میں مسلمان ہو چکا ہوں۔ اگر انہیں پتہ چل گیا کہ میں مسلمان ہو چکا ہوں تو میرے متعلق ایسی باتیں کریں گے جو مجھ میں نہیں ہیں، چنانچہ نبی ﷺ نے (انہیں) پیغام بھیجا تو وہ آئے اور آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تب رسول اللہ ﷺ نے انہیں فرمایا: ’’اے جماعتِ یہود! تمہاری خرابی ہو، اللہ سے ڈرو۔ اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں! بلاشبہ تم خوب جانتے ہو کہ یقینا میں اللہ کا رسول ہوں اور تمہارے پاس حق لے کر آیا ہوں، لہذا تم اسلام لے آؤ۔‘‘  انہوں نے کہا کہ ہم تو اس بات کو نہیں جانتے۔ یہ بات انہوں نے نبی ﷺ سے تین مرتبہ کہی۔ آپ نے فرمایا: ’’تم میں عبداللہ بن سلام کیسا شخص ہے؟‘‘  انہوں نے کہا: وہ ہمارا سردار اور ہمارے سردار کا بیٹا ہے اور ہمارے بڑا عالم اور بڑے عالم کا فرزند ارجمند ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’بتاؤ اگر وہ مسلمان ہو جائے تو؟‘‘  انہوں نے کہا کہ اللہ ایسا نہ کرے، وہ اسلام قبول نہیں کر سکتے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر وہ مسلمان ہو جائیں تو؟‘‘  انہوں نے کہا: اللہ انہیں بچائے، وہ اسلام قبول کرنے والے نہیں ہیں۔ آپ نے پھر تیسری مرتبہ پوچھا: ’’اگر وہ اسلام قبول کر لیں تو؟‘‘  انہوں نے کہا: اللہ انہیں محفوظ رکھے، وہ مسلمان ہونے والے نہیں ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اے ابن سلام! باہر آؤ۔‘‘  وہ باہر آئے اور ان سے کہا: اے گروہ یہود! اس اللہ سے ڈرو جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ تم خوب جانتے ہو کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور سچا مذہب لے کر آئے ہیں۔ یہودیوں نے کہا: تو جھوٹ بولتا ہے۔ پھر (اس بدتمیزی کی بنا پر) رسول اللہ ﷺ نے انہیں باہر نکال دیا۔