تشریح:
1۔ سورہ قمر کی اس آیت میں ایک واضح پیش گوئی تھی۔ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی تو اس وقت مسلمانوں کے ظاہری حالات ایسے دگرگوں تھے کہ اس پیش گوئی کا پورا ہونا ناممکن نظر آتا تھا۔ مسلمانوں کو اپنی جان بچانے کے لیے شعب ابی طالب میں محصور کردیا گیا تھا۔ ان کامعاشرتی بائیکاٹ ہوچکا تھا۔ قریش کے ظلم وستم سے مجبور ہوکر 83 مسلمان (مردوخواتین) حبشہ ہجرت کرگئے تھے۔ ایسے حالات میں اس آیت کا نزول ہوا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے مقام بدر میں اسے حرف بحرف پورا کردیا۔ 2۔ رسول اللہ ﷺ نے میدان بدر میں جب اپنے جاں نثار صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کودیکھا کہ وہ تیاری اور نفری میں کفار سے کم ہیں توآپ نے گھاس سے تیار کیے گئے ایک جھونپڑے میں نہایت تضرع اور عاجزی سے دعا مانگی۔ اگرچہ آپ کو اللہ کے وعدے کے مطابق نصرت وتائید کا پورا یقین تھا لیکن آپ کی نگاہ اللہ تعالیٰ کی شان بے نیازی پر تھی کیونکہ اللہ تعالیٰ کو وعدہ پورا کرنے پر کوئی مجبور نہیں کرسکتا۔ یہ مقام خوف، مقام رجاء کے آگے ہے اور مقام رجاء سے کہیں افضل ہے جبکہ حضرت ابوبکرصدیق ؓ مقام رجاء پر فائز تھے۔ اور بزعم خویش رسول اللہﷺ کو تسلی دے رہے تھے کہ اللہ اپنے وعدے کو ضرور پورا کرے گا لیکن رسول اللہ ﷺ کا مقام اس سے کہیں آگے تھا کہ آپ کے سامنے اللہ کی عظمت وجلالت اورشان بے نیازی تھے۔ بہرحال رسول اللہ ﷺ مقام خوف پر نظر رکھتے تھے جبکہ ابوبکر ؓ پر مقام رجاء یعنی امید کا غلبہ تھا۔ واللہ اعلم۔