تشریح:
پہلے لڑائی کا یہ قاعدہ ہوتا تھا کہ ایک آدمی میدان میں نکلتا اور فریق مخالف کو للکار تا ہواکہتا: کوئی ہے مقابلہ کرنے والا۔ پھر دوسرے فریق کی طرف سے ایک آدمی اس کا مقابلہ کرنے کے لیے سامنے آتا۔ اسے مبارزت کہتے ہیں۔ ان کے درمیان مقابلہ ہوتا، باقی صفیں تماشائی کے طور پردیکھتی رہتیں۔ کبھی تو اسی پر فیصلہ ہوجاتا کبھی ہلہ بول دیا جاتا۔ قریش مکہ نے بھی ایسا ہی کیا۔ ان کی طرف سے تین شخص میدان میں نکلے: عتبہ، شیبہ، اورولید کہنے لگے: اے محمد ﷺ ! ہم سے لڑنے کے لیے کسی کو میدان میں بھیجیں۔ ادھر سے انصار کی طرف سے تین نوجوان نکلے تو انہوں نے کہا: ہم تم سے لڑنا نہیں چاہتے۔ ہم تو اپنی برادری، یعنی قریشیوں سے لڑنا چاہتے ہیں۔ اس وقت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اے حمزہ ؓ !اٹھو، اے علی ؓ ! تم بھی میدان میں اترو اور اے عبیدہؓ ! تم بھی مقابلے کے لیے آجاؤ۔‘‘ حضرت حمزہ ؓ شیبہ کے مقابلے میں اورحضرت علی ؓ ولید کے مقابلے میں کھڑے ہوئے۔ حمزہ ؓ نے شیبہ کو پہلے ہی وار میں قتل کردیا اور حضرت علی ؓ نے بھی اپنے مدمقابل ولید بن عتبہ کو جھٹ مارلیا، لیکن حضرت عبیدہؓ اور ان کے مدمقابل عتبہ بن ربیعہ کے درمیان ایک ایک وار کا مقابلہ ہوا اور دونوں میں سے ہر ایک نے دوسرے پر گہرا زخم لگایا۔ اتنے میں حضرت علی ؓ اور حضرت حمزہ ؓ اپنے اپنے شکار سے فارغ ہوکر آگئے، آتے ہی عتبہ پر ٹوٹ پڑے اور اس کا کام تمام کردیا اور حضرت عبیدہ ؓ کو اٹھا لائے۔ ان کا پاؤں کٹ گیا تھا اور جنگ سے واپسی پر وادی صفراء میں ان کا انتقال ہوگیا۔ (فتح الباري:372/7)