تشریح:
1۔ اس حدیث میں اہل بدر کی فضیلت بیان ہوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف نظر رحمت سے دیکھا انھیں معاف کردیا اور ان کے لیے جنت کو واجب کردیا۔ آئندہ تم جو چاہو کرو۔یہ خوش خبری گناہ کو جائز سمجھنے کے لیے نہیں ہے جو خلاف شرع ہوں کیونکہ اس خوش خبری کا تعلق احکام دنیا سے نہیں بلکہ امور آخرت سے ہے۔ حدود وغیرہ کے ارتکاب پر ان کا اجراء ہوگا جیسا کہ حضرت قدامہ بن مظعون ؓ بدری صحابی ہیں۔انھوں نے شراب پی تو حضرت عمر ؓ نے ان پر حد جاری فرمائی۔ وہ ناراض ہو کر وہاں سے چلے گئے ۔حضرت عمر ؓنے خواب میں دیکھا کہ انھیں مصالحت کے لیے حکم دیا جا رہا ہے تو انھوں نے حضرت قدامہ ؓ کو بلا کر ان سے صلح کر لی۔ (السنن الکبری للنسائي:138/5، رقم 5270۔ وفتح الباري:382/7) اس سے مراد گزشتہ گنا ہ نہیں بلکہ آئندہ جو صادر ہوں گے ان کی معافی کا اعلان ہے ابو عبد الرحمٰن سلمی تابعی نے اس حدیث سے یہی سمجھا ہے، چنانچہ ایک مرتبہ ان کا حبان بن عطیہ سے کسی بات پر جھگڑا ہوا تو ابو عبدالرحمٰن سے کہا کہ حضرت علی ؓ کو جنگ وقتال کی جرات ایک حدیث کی وجہ سے ہوئی پھر انھوں نے یہی حدیث بیان کی کہ اس میں اہل بدر کے متعلق امور یہ تو مستقبلہ کی معافی کا ذکرہے۔(صحیح البخاري، استابة المرتدین، حدیث:6939۔)
2۔ حضرت عمر ؓ دین کے معاملے میں بہت سخت تھے۔ منافقین کے متعلق ان کا سخت رویہ تو مشہور ہے۔ ان کی رائے ملکی قانون اور سیاست پر مبنی تھی کہ جو شخص ملک و ملت کے ساتھ بے وفائی کر کے جنگی راز دشمن کو پہنچائےوہ مجرم قابل گردن زونی ہے اس قسم کی فوجی غلطی پر اس کا کورٹ مارشل ہونا چاہیے اور اس پر نفاق کا اطلاق بھی نفاق عقیدہ کے طور پر نہیں بلکہ نفاق عملی کے اعتبار سے تھا لیکن رسول اللہ ﷺ نے ان کی صحیح نیت جان کر اور ان کے بدری ہونے کی بنا پر حضرت عمر ؓ سے اتفاق نہیں کیا بلکہ انھیں معذور قراردے کر چھوڑدیا، پھر اس سے حضرت عمر ؓ کا اشکبار ہونا شدت خوشی کی وجہ سے تھا کیونکہ مذکورہ عظیم خوش خبری انھیں بھی شامل تھی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کا آبدیدہ ہو نا رنج و غم کی وجہ سے ہو کہ میں نے خواہ مخواہ حضرت حاطب ؓ کے متعلق سختی کی اور انھیں منافق کہا۔ اگرچہ وہ نفاق عملی تھا لیکن رسول اللہ ﷺ کے کلام سے واضح ہو گیا کہ ان کی شان اس نفاق عملی سے بھی بلند اور ارفع تھی۔ واضح رہے کہ خوشی کے آنسو ٹھنڈے اور رنج والم کے گرم ہوتے ہیں۔ واللہ اعلم ۔