تشریح:
1۔ ان دونوں بچوں کا نام معاذ اور معوذتھا، انھوں نے پہلے ہی یہ عہد کیا تھا کہ ابو جہل ہمارے رسول اللہ ﷺ کو گالیاں دیتا ہے، اس لیے ہم اسے ختم کر کے ہی رہیں گے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے عزم کو پورا کر دیا لیکن حضرت عبد الرحمٰن بن عوف ؓ نے خیال کیا کہ یہ دونوں کمسن بچے ہیں جو بوقت ضرورت مجھے دشمن سے نہیں بچا سکیں گے۔
2۔ بعض حضرات نے یہ معنی کیے ہیں کہ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف انھیں پہچانتے نہیں تھے ڈر پیدا ہوا کہ شاید وہ دشمن ہیں لیکن یہ معنی صحیح معلوم نہیں ہوتے کیونکہ دشمن اس طرح کھڑا نہیں ہوتا پہلے معنی ہی صحیح ہیں کہ نو خیز ہونے کی وجہ سے انھیں تردو ہوا کہ اگر یہ دونوں بھاگ کھڑے ہوئے تو میں اکیلا رہ جاؤں گا یا دشمن کے حملےکے وقت میرا دفاع نہیں کر سکیں گے جیسا کہ ایک روایت میں وضاحت ہے کہ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف ؓ کو خیال پیدا ہوا میری دونوں طرف دو بچے ہیں، اس لیے دشمن مجھ پر حملہ کردے گا اور یہ دونوں میرا دفاع نہیں کر سکیں گے۔ (صحیح البخاري، فرض الخمس، حدیث:3141 و فتح الباري:385/7)
3۔ان دونوں بچوں کو باز سے تشبیہ ی کیونکہ اس میں وصف شجاعت اور شکار کو جھپٹ لینا جاتا ہے، اسی طرح یہ دونوں ابو جہل پر جھپٹ پڑے حتی کہ اسے ہلاک کردیا۔