تشریح:
1۔ رسول اللہ ﷺ نے جن دس آدمیوں کو بطور جاسوس بھیجا ان میں سے سات کے نام یہ ہیں: مرثد بن ابو مرثد غنوی، خالد بن بکیر، معتب بن عبید خبیب بن عدی زید بن دثنہ عبد اللہ بن طارق اور ان کے امیر حضرت عاصم بن ثابت ؓ باقی تین حضرات کے نام معلوم نہیں ہو سکے۔شاید وہ ان کے خدمت گزار ہوں گے، اس لیے ان ناموں کے متعلق توجہ نہیں دی گئی۔ (فتح الباري:445/7) ان میں سے سات تو وہیں شہید ہو گئے اور باقی دو مکہ مکرمہ میں فروخت کردیا گیا۔ زید بن دثنہ کو صفوان بن امیہ نے خرید ااوراپنے باپ کے بدلے میں انھیں شہید کیا اور حضرت خبیب ؓ کو حارث بن عامر کے بیٹوں نے خریدا کیونکہ ان کے باپ حارث کو حضرت خبیب ؓ نے بدر کے دن قتل کیا تھا انھوں نے اپنے باپ کے بدلے میں انھیں شہید کیا۔ (فتح الباري:447/7)
2۔چونکہ امام بخاری ؒ کا مقصد شہدائے بدر کے فضائل بیان کرنا ہے اور اس روایت میں ہے کہ حضرت عاصم ؓ نے قریش کے بڑے سرداروں میں سے ایک سردار کو قتل کیا تھا، اس لیے کفار قریش نے ان سے انتقام لیا اور اللہ تعالیٰ نے انھیں محفوظ رکھا۔ ایک روایت میں صراحت ہے کہ بدر کے دن ایک بڑے سردار کوقتل کیا تھا۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4086) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کے حکم سے عقبہ بن ابی معیط کو گرفتا رکر کے قتل کیا تھا۔ (فتح الباري:387/7)
3۔ حدیث کے آخر میں حضرت کعب بن مالک ؓ کا ذکر خیر ہے اگرچہ اس حصے کا حضرت خبیب ؓ کے واقعے سے کوئی تعلق نہیں تاہم حدیث کے اس حصے سے ان لوگوں کی تردید مقصود ہے جو کہتے ہیں کہ حضرت مرارہ اور حضرت بلال ؓ بدری صحابی نہیں۔ سب سے پہلے جس نے انکار کیا وہ امام احمد بن حنبل ؒ کے شاگرد حضرت اثرم ہیں۔ حافظ ابن قیم ؒ نے بھی اس بنا پر انکار کیا ہے کہ اگر یہ دونوں بدری صحابی ہوتے تو حضرت حاطب بن ابی بلتعہ ؓ کی طرح ان سے چشم پوشی کی جاتی لیکن یہ نص کے مقابلے میں قیاس کو پیش کرنا ہے بہرحال اس حدیث میں صراحت ہے کہ وہ نیک اور بزرگ آدمی تھےجنھوں نے غزوہ بدر میں بھی شرکت کی تھی۔ اس سے ان کی مدح اور منقبت مقصود ہے۔ (فتح الباري:388/7) حضرت خبیب ؓ کے متعلق دیگر تفصیلات ہم آئندہ بیان کریں گے۔ ان شاء اللہ۔