تشریح:
1۔ ان تمام احادیث میں اموال بنونضیر کا ذکر ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو بطور فے عطا فرمائے تھے، اس لیے امام بخاری ؒ نے انھیں ذکر فرمایا ہے۔
2۔ دراصل بنونضیرنے رسول اللہ ﷺ کو ایک گھناؤنی سازش کے تحت مارڈالنے کا منصوبہ بنایاتھا۔ آپ ایک کام کے لیے ان کے پاس گئے اور دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے کہ ان میں سے ایک شخص نے کہا: کون ہے جو چھت پر چڑھ کر اوپر سے چکی کا پاٹ گرائے اور آپ کو کچل دے؟ ایک بدبخت یہودی عمرو بن جحاش بولا: میں یہ کام کروں گا، لیکن رسول اللہ ﷺ کو بروقت اطلاع ہوگئی۔ آپ وہاں سے واپس آگئے اور آتے ہی انھیں پیغام بھیج دیا کہ تم دس دن کے اندر اندر یہاں سے نکل جاؤ۔ جو سامان تم اپنے ساتھ لے جاسکتے ہو تمھیں اس کی اجازت ہے۔ دس دن کے بعد جوشخص نظر آیا قتل کردیا جائے گا۔ آپ کے اس پیغام سے وہ اس قدر دہشت زدہ ہوئے کہ اپنا گھر بارچھوڑ کر وہاں سے نکل جانے کی تیاریاں کرنے لگے اور اپنے مکانوں کی چھتیں اکھاڑ اکھاڑ کر ان کی لکڑیاں اپنے اونٹوں پر لادنے لگے۔ وہ خود ہی اپنے گھروں کو مسمار کررہے تھے اور مسلمان بھی اپنی ضروریات کے مطابق ان کے گھروں کو مسمار کررہے تھے۔ قرآن کریم میں ہے:’’وہ یقین کر بیٹھے تھے کہ ان کے قلعے انھیں اللہ کے عذاب سے بچالیں گے مگر اللہ نے انھیں ایسے رخ سے آلیا جس کا انھیں وہم خیال بھی نہ تھا۔ اور ان کے دلوں میں ایسارعب ڈال دیا کہ وہ خود ہی اپنے گھروں کو برباد کرنے لگے اور مسلمانوں کے ہاتھوں بھی کروانے لگے، اہل بصیرت! عبرت حاصل کرو۔‘‘ (الحشر:2) ان کے سردار حی بن اخطب اور سلام بن ابی الحقیق نے مدینے سے نکل کر خیبر کا رخ کیا اور کچھ شام کی طرف چلے گئے۔ بہرحال یہود بنونضیر کا ذکر مقصود ہے۔3۔ واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ کے اموال تین طرح کے تھے۔ ©۔ جو آپ کو ہبہ کیے گئے تھے۔ ©۔ اموال بنو نضیر جو ان کے جلاوطن ہونے کے بعد آپ کو ان کا حقدار بنایا گیا تھا۔ ©۔خیبر اورفدک وغیرہ سے بطور خمس آپ کو ملاتھا۔ یہ سب آپ کی ملکیت تھے اور آپ ان سے اہل وعیال کے اخراجات پورے کرتے اور مسلمانوں کی ضرورتوں پر خرچ کرتےتھے۔رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد ان کی ملکیت ختم ہوگئی اور وہ تمام اموال صدقہ قرارپائے جیسا کہ ان احادیث میں ان کا ذکر ہے۔