تشریح:
1۔ اس حدیث میں سانحہ رجیع کو بیان کیا گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے غزوہ اُحد کے بعد دس جاں نثاروں کو ایک مہم پرروانہ کیا۔ ان میں سات کے نام حسب ذیل ہیں: ©۔ عاصم بن ثابت۔ ©۔ مرثد بن ابی مرثد ©۔ عبداللہ بن طارق ©۔ خبیب بن عدی ©۔ زید بن وثنہ ©۔ خالد بن بکیر©۔ معتب بن عبیدہ جو عبداللہ بن طارق کے مادری بھائی تھے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ باقی تین ان کے خدمت گزار ہوں گے، اس لیے ان کے نام معلوم نہیں ہوسکے اور نہ اس طرف کسی نے توجہ ہی دی ہے۔ (فتح الباري:475/7) ان دس حضرات میں سے سات نے کفار کے عہد و پیمان پر اعتبار نہ کیا، اس لیے وہ اپنی بہادری کے جوہر دکھاتے ہوئے وہاں شہید ہوگئے۔ حضرت عاصم ؓ کی دعا اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی اور رسول اللہ ﷺ نے ان کے شہید ہونے کی خبر اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین تک پہنچادی۔ ان میں سے عبداللہ بن طارق ؓ، حضرت خبیب بن عدی ؓ، اور زید بن دثنہ ؓ ان کے بہکاوے میں آگئے بالآخر کفار نے انھیں قید کرلیا۔ حضرت عبداللہ بن طارق کو بھی وہیں قتل کردیا گیا جبکہ باقی دو ساتھیوں کو مکہ مکرمہ میں فروخت کردیا گیا۔
2۔ حضرت عاصم ؓ کے جسم کاکوئی حصہ لینے کے لیے قریش نے چند آدمی بھیجے تاکہ ان کے شہید ہونے کا علم ہوجائے لیکن وہ ایسا کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ بعض نے لکھا ہے کہ سلافہ بنت سعد نے نذر مانی تھی کہ اگر میں نے عاصم پرقدرت حاصل کرلی تو میں اس کی کھوپڑی میں شراب نوشی کروں گی، لیکن اللہ تعالیٰ نے شہید کی مکھیوں کے چھتے سے حضرت عاصم ؓ کے جسم کی حفاظت فرمائی۔ (فتح الباري:480/7)
3۔ حضرت خبیب بن عدی ؓ کو ابوسروعہ عقبہ بن حارث نے قتل کیا تھا۔ لیکن ابن اسحاق نے بیان کیا ہے کہ عقبہ بن حارث نے کہا: میں نے حضرت خبیب بن عدی ؓ کو قتل نہیں کیا کیونکہ میں اس وقت بہت چھوٹاتھا، البتہ ابومیسرہ عبدری نے میرے ہاتھ میں نیزہ دیا، پھر میراہاتھ پکڑ کر نیزے کو حرکت دی اورحضرت خبیب ؓ کے جسم میں پیوست کردیا۔ (فتح الباري:481/7)