تشریح:
1۔ جب رسول اللہ ﷺ غزو ہ خندق سے کامیابی کے ساتھ واپس ہوئے تو ظہر کے وقت حضرت جبرئیل ؑ تشریف لائے اور کہا: آپ کے لیے اللہ کا حکم یہ ہے کہ آپ فوراً بنوقریظہ پر فوج کشی کریں، چنانچہ آپ نے حضرت بلال ؓ کو اعلان کرنے کا حکم دیا کہ جو بھی سمع واطاعت کا خوگر ہے اسے چاہیے کہ وہ نمازعصر بنوقریظہ پہنچ کر ادا کرے۔ راستے میں نماز پڑھنے اور نہ پڑھنے والے دونوں فریق اجروثواب کےحقدار ہوئے لیکن جن لوگوں نے نماز کا وقت ہونے پر راستے میں اد اکرلی انھوں نے دوفضیلتوں کو حاصل کرلیا: ایک بروقت نماز عصر ادا کرنے کی اوردوسری بنوقریظہ بروقت پہنچے کی جبکہ دوسرے فریق نے رسول اللہ ﷺ کے ظاہر فرمان کے پیش نظر نماز عصر تاخیر سے اداکی، اس لیے ان پر بھی کوئی نکتہ چینی نہیں کی گئی۔ (فتح الباري:512/7)
2۔ صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز ظہر کے متعلق حکم دیا کہ اسے بنوقریظہ پہنچ کر ادا کیاجائے۔ (صحیح مسلم، الجھاد والسیر، حدیث:4602) ان روایات میں تضاد نہیں کیونکہ جن لوگوں نے نمازظہر پڑھ لی تھی انھیں فرمایا کہ نمازعصر بنوقریظہ جا کر ادا کریں اور جنھوں نے ابھی نماز ظہر نہ پڑھی تھی انھیں حکم دیا کہ نماز ظہر بنوقریظہ پہنچ کر پڑھیں۔ (فتح الباري:511/7)
3۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مجتہد سے غلط اور صحیح دونوں صادر ہوسکتے ہیں اور خطا صادر ہونے پر اسے گناہگار نہیں قراردیا جاسکتا مگر جب اسے قرآن وحدیث سے ا پنی اجتہادی غلطی کا علم ہوجائے تواسے اجتہاد ترک کرنا اورکتاب وسنت پر عمل کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔ واللہ اعلم۔