تشریح:
1۔ نجد اونچی زمین کو کہتے ہیں جبکہ نشیبی زمین غور یا تہامہ کہلاتی ہے اور ذات رقاع کا علاقہ بھی نجد میں ہے، گویا غزوہ نجد سے مراد غزوہ ذاتِ رقاع ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے غزوہ نجد، یعنی غزوہ ذات رقاع میں صلاۃ خوف پڑھی تھی اورحضرت ابوہریرہ ؓ محاصرہ خیبر کے دنوں میں مسلمان ہوکر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئےتھے۔
2۔ اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے یہ ثابت کیا کہ غزوہ ذات رقاع غزوہ خیبر کے بعد ہواہے کیونکہ حضرت ابوہریرہ ایام خیبر میں مسلمان ہوئے۔ پھر انہوں نے اسلام لانے کےبعد غزوہ ذات رقاع میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ صلاۃِ خوف ادا کی۔ ابوداؤد کی روایت میں تفصیل ہے کہ مروان بن حکم نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے پوچھا: کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ صلاۃِ خوف پڑھی ہے؟ حضرت ابوہریرہ نے فرمایا: ہاں پڑھی ہے۔ مروان نے کہا:کب پڑھی تھی۔ حضرت ابوہریرہ نے کہا: غزوہ نجد کے دوران میں جہاد کے موقع پر پڑھی تھی۔ (سنن أبي داود، صلاة السفر، حدیث:1240 و فتح الباري:535/7)
3۔ واضح رہے کہ صلاۃِ خوف کے متعلق کتب حدیث میں مختلف کیفیات آتی ہیں، حالات وجگہ کے پیش نظر جو صورت مناسب ہو اس پر عمل کرنا چاہئے اور یہ امیر وقت کی صوابدید پر موقوف ہے۔ واللہ اعلم۔
ضروری یادداشت: غزوہ خندق کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح وکامرانی سے ہمکنار کیا۔ اس طرح مدینہ طیبہ میں مسلمانوں کا اقتدار مضبوط ہوگیا اور جنگ اُحد کے بعد آس پاس کے بدوؤں نے اودھم مچارکھا تھا اور مسلمانوں کو سخت مشکلات میں الجھا رکھا تھا، وہ نہایت ظالمانہ طریقے سے داعیان اسلام پرحملے کرکے انھیں موت کے گھاٹ اتاردیتے تھے، اب ان کی جرءت اس حد تک بڑھ چکی تھی کہ وہ مدینہ طیبہ پر چڑھائی کی سوچ رہے تھے۔ رسول اللہ ﷺ کو ان دنوں اطلاع ملی کہ بنوعطفان کے دوقبیلےبنومحارب اور بنوثعلبہ لڑائی کے لیے بدوؤں اور دیہاتیوں کی نفری فراہم کررہے ہیں۔ یہ خبر ملتے ہی آپ ﷺ نے نجد پر یلغار کا فیصلہ کیا، جس کا مقصد یہ تھا کہ ان سنگ دل بدوؤں پر خوف طاری ہوجائے اور وہ دوبارہ مسلمانوں کے خلاف پہلے جیسی سنگین کا روائیوں کی جرائت نہ کریں۔ جب آپ نے یلغار کی تو بدو خوف زدہ ہوکر بھاگ کھڑے ہوئے۔ اہل سیر نے اس سلسلے میں ایک معین غزوے کا نام ذکر کیا ہے جو سرزمین نجد میں پیش آیا اور وہ اسی غزوے کو غزوہ ذات رقاع قراردیتے ہیں۔ اس کا مقصد بدوؤں کی شوکت پرکاری ضرب لگانا تھا تاکہ انھیں مدینے کی طرف منہ کرنے کی جرءت نہ ہو۔ امام بخاری ؒ نے مذکورہ عنوان کے تحت اسی غزوے سے متعلق احادیث بیان کی ہیں۔ واللہ اعلم۔