تشریح:
1۔عام قراءت (تَلَقَّوْنَهُ) ہے جو (تلقي) سے ماخوذ ہے جس کے معنی لینا اور قبول کرنا ہیں، جبکہ حضرت عائشہ ؓ کے نزدیک (تَلِقُونَه) ہے جو ولق سے مشتق ہے۔ اس کے معنی جھوٹ بولنے میں جلدی کرنا ہیں لیکن پہلی قراءت متواتر ہے اور سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ کے متعلق اس آیت کا نازل ہونا یہ معنی نہیں رکھتا کہ ان کی قرآءت متواتر اور صحیح ہے۔
2۔ قراءت متواتر ہ میں ایک تاکو خذف کردیا گیا ہے۔ اصل میں (تتلقونه) فعل مضارع کا صیغہ ہے۔ واللہ اعلم۔