تشریح:
حضرت عمر ؓ نے حدیبیہ کے دن جو حالات دیکھے تھے ان کے پیش نظر انھیں یقین تھا کہ لڑائی ہو کر رہے گی، اس لیے انھوں نے حضرت ابن عمر ؓ کو انصاری سے گھوڑا لانے کے متعلق کہا اور خود بھی تیاری میں مصروف ہو گئے۔ آپ نے جب اپنے بیٹے کو گھوڑا لانے کے لیے بھیجا تو دیکھا کہ لوگ جمع ہیں۔ اس لیے فرمایا کہ لوگوں کو بھی دیکھنا کیوں جمع ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے پہلے لوگوں کا حال معلوم کیا اور بیعت کر لی۔ پھر گھوڑالا کر حاضر کیا اوراپنے باپ کو لوگوں کے اجتماع کا حال بتایا پھر انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے بیعت کی، بظاہر یہ بیعت، بیعت اسلام معلوم ہوتی تھی، اس لیے جس شخص کو حضرت عمر ؓ کےمسلمان ہونے کا علم نہیں تھا جب اس نے بیعت کا لفظ سنا تو سمجھا کہ حضرت ابن عمر ؓ اپنے باپ سے پہلے بیعت اسلام کر کے آئے ہیں، حالانکہ یہ بیعت رضوان تھی۔ بیعت اسلام کے وقت بھی اس طرح کا واقعہ پیش آیا تھا جس کی تفصیل ایک دوسری حدیث میں بیان ہوئی ہے۔ اس حدیث کے مطابق جب کہا جاتا کہ ابن عمر ؓ نے اپنے باپ سے پہلے ہجرت کی ہے تو آپ ناراض ہو جاتے اور اس کی وضاحت کرتے کہ لوگوں کا گمان غلط ہے۔ (صحیح البخاري، مناقب الأنصار ، حدیث:3916)