تشریح:
1۔ رسول اللہ ﷺ نے جب خیبر فتح کیا تو وہاں کی زمین وہاں کے لوگوں کے مطالبے پر ان کے پاس رہنے دی، تاہم ان کے ساتھ اس طرح سے معاملہ کیا کہ وہ اس میں کھیتی باڑی کریں اور انھیں اس کی پیداوار سے نصف ملے گا۔ 2۔رسول اللہ ﷺ نے اہل خیبر سے یہ معاملہ بطور مزارعت کیاتھاجبکہ بعض آئمہ کے نزدیک معاملہ مزارعت جائز نہیں۔ اگرچہ مزارعت کی بعض صورتیں ناجائز ہیں مثلاً:زمین کے کسی خاص ٹکڑے کی پیداوار مالک اپنے لیے خاص کر لے، چاہے دوسری زمین پیداوار دے یا نہ دے۔ ایسا کرنا شرعاًناجائز ہے تاہم ان مخصوص صورتوں کے ناجائز ہونے کی وجہ سے مطلق طور پر اس معاملے کو ناجائز کہنا درست نہیں کیونکہ متعدد صحابہ کرام ؓ سے قولی اور عملی طور پر اس کا جواز منقول ہے۔ واللہ اعلم۔