Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
()
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
4346.
حضرت مجاہد سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ فتح مکہ کے دن خطبے کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا: ’’اللہ تعالٰی نے جس دن آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا تھا اسی دن اس نے مکے کو حرمت والا قرار دے دیا تھا۔ یہ شہر اللہ کے حرام ٹھہرانے سے قیامت تک کے لیے حرمت والا ہے۔ مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال نہیں ہوا اور نہ میرے بعد کسی کے لیے حلال ہو گا۔ میرے لیے بھی دن کی ایک گھڑی کے لیے حلال ہوا تھا۔ یہاں حدود حرم میں شکار کے قابل کسی جانور کو نہ چھیڑا جائے۔ یہاں کے کانٹے دار درخت بھی نہ کاٹے جائیں، اور نہ یہاں کی گھاس اکھاڑی جائے، نیز یہاں پر گری پڑی چیز نہ اٹھائی جائے سوائے اس شخص کے جو اس کے اعلان کا ارادہ رکھتا ہو۔‘‘ حضرت عباس بن عبدالمطلب ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! اذخر گھاس کی اجازت دیں کیونکہ وہ لوہاروں اور گھروں کی ضرورت ہے۔ آپ خاموش ہو گئے۔ پھر آپ نے فرمایا: ’’ٹھیک ہے اذخر اس سے مستثنیٰ ہے۔ چنانچہ یہ تمہارے لیے حلال ہے۔‘‘ دوسری روایت ابن جریج سے ایسے ہی ہے، انہوں نے عبدالکریم سے، انہوں نے عکرمہ سے اور انہوں نے ابن عباس ؓ سے بیان کیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے بھی نبی ﷺ سے اسے بیان کیا ہے۔
تشریح:
1۔یہ حدیث مرسل ہے کیونکہ امام مجاہد تابعی ہیں کو رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں، البتہ امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو دوسرے مقامات پر متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاري، الجزیة والموادعة، حدیث:3189۔)2۔واضح رہے کہ مکہ مکرمہ آج تک حرم اور قیامت تک حرمت والا رہے گا۔ آج تک کسی غیر مسلم حکومت کا وہاں قیام نہیں ہوا اور نہ قیامت تک ہو سکے گا۔ حکومت سعودیہ نے بھی اس مقدس شہر کی حرمت و عزت کا بہت تحفظ کیا ہے۔ حرم پاک کی حفاظت کے لیے بے پناہ سرمایہ خرچ کیا جاتا ہے اور وہاں آنے جانے والوں کو مفت سہولیات فراہم کی جاتی ہیں اللہ اس حکومت کو قائم و دائم رکھے۔ 3۔چونکہ اس حدیث میں فتح مکہ کے حوالے سے رسول اللہ ﷺ کے خطبے کا ذکر ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو یہاں بیان کیا ہے حضرت ابو ہریرہ ؓ کی روایت کو امام بخاری ؒ نے متصل سند سےبیان کیا ہے۔ (صحیح البخاري، العلم، حدیث:112۔)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4135
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4313
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4313
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4313
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
حضرت مجاہد سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ فتح مکہ کے دن خطبے کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا: ’’اللہ تعالٰی نے جس دن آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا تھا اسی دن اس نے مکے کو حرمت والا قرار دے دیا تھا۔ یہ شہر اللہ کے حرام ٹھہرانے سے قیامت تک کے لیے حرمت والا ہے۔ مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال نہیں ہوا اور نہ میرے بعد کسی کے لیے حلال ہو گا۔ میرے لیے بھی دن کی ایک گھڑی کے لیے حلال ہوا تھا۔ یہاں حدود حرم میں شکار کے قابل کسی جانور کو نہ چھیڑا جائے۔ یہاں کے کانٹے دار درخت بھی نہ کاٹے جائیں، اور نہ یہاں کی گھاس اکھاڑی جائے، نیز یہاں پر گری پڑی چیز نہ اٹھائی جائے سوائے اس شخص کے جو اس کے اعلان کا ارادہ رکھتا ہو۔‘‘ حضرت عباس بن عبدالمطلب ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! اذخر گھاس کی اجازت دیں کیونکہ وہ لوہاروں اور گھروں کی ضرورت ہے۔ آپ خاموش ہو گئے۔ پھر آپ نے فرمایا: ’’ٹھیک ہے اذخر اس سے مستثنیٰ ہے۔ چنانچہ یہ تمہارے لیے حلال ہے۔‘‘ دوسری روایت ابن جریج سے ایسے ہی ہے، انہوں نے عبدالکریم سے، انہوں نے عکرمہ سے اور انہوں نے ابن عباس ؓ سے بیان کیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے بھی نبی ﷺ سے اسے بیان کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
1۔یہ حدیث مرسل ہے کیونکہ امام مجاہد تابعی ہیں کو رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں، البتہ امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو دوسرے مقامات پر متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاري، الجزیة والموادعة، حدیث:3189۔)2۔واضح رہے کہ مکہ مکرمہ آج تک حرم اور قیامت تک حرمت والا رہے گا۔ آج تک کسی غیر مسلم حکومت کا وہاں قیام نہیں ہوا اور نہ قیامت تک ہو سکے گا۔ حکومت سعودیہ نے بھی اس مقدس شہر کی حرمت و عزت کا بہت تحفظ کیا ہے۔ حرم پاک کی حفاظت کے لیے بے پناہ سرمایہ خرچ کیا جاتا ہے اور وہاں آنے جانے والوں کو مفت سہولیات فراہم کی جاتی ہیں اللہ اس حکومت کو قائم و دائم رکھے۔ 3۔چونکہ اس حدیث میں فتح مکہ کے حوالے سے رسول اللہ ﷺ کے خطبے کا ذکر ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو یہاں بیان کیا ہے حضرت ابو ہریرہ ؓ کی روایت کو امام بخاری ؒ نے متصل سند سےبیان کیا ہے۔ (صحیح البخاري، العلم، حدیث:112۔)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم سے ابو عاصم نبیل نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے بیان کیا، کہا مجھ کو حسن بن مسلم نے خبر دی اور انہیں مجاہد نے کہ رسول اللہ ﷺ فتح مکہ کے دن خطبہ سنانے کھڑے ہوئے اور فرمایا جس دن اللہ تعالیٰ نے آسمان وزمین کو پیدا کیا تھا، اسی دن اس نے مکہ کو حرمت والاشہر قرار دے دیا تھا۔ پس یہ شہر اللہ کے حکم کے مطابق قیامت تک کے لیے حرمت والا رہے گا۔ جو مجھ سے پہلے کبھی کسی کے لیے حلال نہیں ہوا اور نہ میرے بعد کسی کے لیے حلال ہوگا اور میرے لیے بھی صرف ایک گھڑی کے لیے حلال ہوا تھا۔ یہاں حدود حرم میں شکار کے قابل جانور نہ چھیڑے جائیں۔ یہاں کے کانٹے دار درخت نہ کاٹے جائیں نہ یہاں کی گھاس اکھاڑی جائے اور یہاں پر گری پڑی چیز اس شخص کے سوا جو اعلان کر نے کا ارادہ رکھتا ہو اور کسی کے لیے اٹھانی جائز نہیں۔ اس پر حضرت عباس بن عبد المطلب ؓ نے کہا یا رسول اللہ ! اذخر (گھاس) کی اجازت دے دیجئے کیونکہ سناروں کے لیے اور مکانات (کی تعمیروغیرہ) کے لیے یہ ضروری ہے۔ آ پ خاموش ہوگئے پھر فرمایا اذخر اس حکم سے الگ ہے اس کا (کاٹنا) حلال ہے۔ دوسری روایت ابن جریج سے (اسی سند سے) ایسی ہی ہے انہوں نے عبد الکریم بن مالک سے، انہوں نے ابن عباس سے اور ابوہریرہ ؓ نے بھی آنحضرت ﷺ سے ایسی ہی روایت کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
مجاہد تابعی ہیں تو یہ حدیث مرسل ہوئی مگرا مام بخاری ؒ نے اس کو کتاب الحدود کتاب جہاد میں وصل کیا ہے۔ مجاہد سے، انہوں نے طاؤس سے، انہوں نے ابن عباس ؓ سے۔ صداقت محمدی اس سے ظاہر ہے کہ مکۃ المکرمہ آج بھی حرم ہے اور قیامت تک حرمت والا رہے گا۔ آ ج تک کسی غیر مسلم حکومت کا وہاں قیام نہیں ہوا اور نہ قیامت تک ہوسکے گا۔ حکومت سعودیہ نے بھی اس مقدس شہر کی حرمت و عزت کابہت کچھ تحفظ کیا ہے۔ اللہ تعالی اس حکومت کو قائم ودائم رکھے ۔ آمین ۔ حضرت علامہ ابن قیم ؒ نے فتح مکہ کوفتح اعظم سے تعبیر کرتے ہوے لکھا ہے فصل في الفتح الأعظم الذي أعز اللہ به دینه ورسوله و جندہ وحرمه الأمین واستنقذ به بلدہ وبیته الذي جعله ھدی للعالمین من أیدي الکفار والمشرکین وھو الفتح الذي استبشربه أھل السماءوضربت أطناب عزة علی مناکب الجوزاء ودخل الناس به في دین اللہ أفواج وأشرق به وجه الأرض ضیاءوابتھاجا(زاد المعاد)یعنی اللہ تبارک و تعالی نے فتح مکہ سے اپنے دین کو اپنے رسول کو اپنی فوج کو اپنے امن والے شہر کو بہت بہت عزت فرمائی اور شہر مکہ اور خانہ کعبہ کوجو سارے جہانوں کے لیے ذریعہ ہدایت ہے اس کو کفار اور مشرکین کے ہاتھوں سے آزادی نصیب کی ۔ یہ وہ فتح ہے جس کی خوشی آسمانی مخلوق نے منائی اور جس کی عزت کے جھنڈے جوزہ ستارے پر لہرائے اور لوگ جوق در جوق جس کی وجہ سے اللہ کے دین میں داخل ہوگئے جس کی برکت سے ساری زمین منور ہوکر روشنی اور مسرت سے بھر پور ہو گئی۔ غزوئہ فتح مکہ کا ذکر مزید تفصیل کے ساتھ یوں ہے۔ غزوات نبوی کے سلسے میں فتح مکہ کا کارنامہ (گو صحیح معنی میں غزوہ وہ بھی نہیں) کہنا چاہئے کہ سب سے بڑا کا رنامہ ہے اور لڑائیاں چھوٹی بڑی جتنی بھی ہوئی سب کا مرکزی نقطہ یہی تھا۔ صلح حدیبیہ کا زمانہ فتح مکہ سے کوئی دوسال قبل کا ہے ۔ قرآن مجید نے پیش خبری اسی وقت تعین کے ساتھ کردی تھی ﴿اناَّ فَتَحنَا لَکَ فَتحًا مُّبِینَا﴾(الفتح:1)”ہم نے اے پیغمبر ! آپ کو ایک فتح دے دی کھلی ہوئی“ فتح سے آیت میں گو اشارہ قریب صلح حدیبیہ کی جانب ہے لیکن سب جانتے ہیں کہ اشارہ بعید فتح مکہ کی جانب ہے ۔ عرب اب جوق در جوق ایمان لارہے تھے اور قبیلے پر قبیلے اسلام میں داخل ہوتے جا رہے تھے ۔ فتح مکہ چیز ہی ایسی تھی ۔ قرآن مجید نے اس کی اپنی زبان بلیغ میں یوں نقشہ کشی کی ہے ۔ ﴿إذا جَائَ نَصرُ اللّہِ وَالفَتحُ وَرَایتَ النَّاسَ یَدخُلُونَ فِی دِینِ اللّہِ افوَاجَا﴾(النصر: 1-2) جب آگئی اللہ کی مدد اور فتح مکہ اور آپ نے لوگوں کو دیکھ لیا کہ لوگ فوج کی فوج اللہ کے دین میں داخل ہورہے ہیں اور خیر یہ صورت تو فتح مکہ کے بعد واقع ہوئی خود فتح اس طرح حاصل ہوئی کہ گو آنحضور ﷺ کے ہمراہ دس ہزار صحابیوں کا لشکرتھا اور عرب کے بڑے بڑے پر قوت قبیلے اپنے الگ الگ جیش بناتے ہوئے اور اپنے اپنے پرچم اڑاتے ہوئے جلو میں تھے لیکن خونریزی دشمن کے اس شہر بلکہ دار الحکومت میں برائے نام ہی ہونے پائی اور شہر پر قبضہ بغیر خون کی ندیاں بہے گویا چپ چپاتے ہوگیا۔ ﴿وَهُوَ الَّذِي كَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْ بَعْدِ أَنْ أَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ وَكَانَ اللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرًا﴾(الفتح :24)وہ اللہ وہی ہے جس نے روک دئے ان کے ہاتھ تم سے اور تمہارے ہاتھ ان سے شہر مکہ میں بعد اس کے کہ تم کو اس نے ان پر فتح مند کردیا تھا۔ اس آ یت میں اشارہ جہاں بقول شار حین کے حدیبیہ کی طرف ہے وہیں بہ قول بعض دوسرے شارحین کے غیر خون پر فتح مکہ کی جانب ہے۔ فتح مکہ کا یہ عظیم الشان اور دنیا کی تاریخ کے لیے نادر اور یادگار واقعہ رمضان 8 مطابق جنوری 630 عیسوی میں پیش آیا۔ (قرآنی سیرت نبوی)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Mujahid (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) got up on the day of the Conquest of Makkah and said, "Allah has made Makkah a sanctuary since the day He created the Heavens and the Earth, and it will remain a sanctuary by virtue of the sanctity Allah has bestowed on it till the Day of Resurrection. It (i.e. fighting in it) was not made lawful to anyone before me!, nor will it be made lawful to anyone after me, and it was not made lawful for me except for a short period of time. Its game should not be chased, nor should its trees be cut, nor its vegetation or grass uprooted, not its Luqata (i.e. Most things) picked up except by one who makes a public announcement about it." Al-Abbas bin 'Abdul Muttalib said, "Except the Idhkhir, O Allah's Apostle, as it is indispensable for blacksmiths and houses." On that, the Prophet (ﷺ) kept quiet and then said, "Except the Idhkhir as it is lawful to cut."