تشریح:
1۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کو رسول اللہ ﷺ نے 9ہجری میں حاکم بنا کر یمن بھیجا تھا اورحجۃ الوداع 10 ہجری میں ہوا۔
2۔ رسول اللہ ﷺ نے حج کرنے سے پہلے تمام عرب میں اعلان کردیا تھا کہ احکام حج سیکھنے کے لیے سب لوگ جمع ہوں اور تمام گورنروں کو بھی یہی حکم تھا۔ اس حکم کی تعمیل میں حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ تشریف لائے تو انھوں نے احرام باندھتے وقت یہ نیت کی تھی کہ جو احرام رسول اللہ ﷺ کا ہے وہی میراہے۔ لیکن رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ قربانی کا جانور تھ اور آپ نے حج قرآن کی نیت کی تھی جبکہ حضر ت ابوموسیٰ ؓ اپنے ساتھ قربانی کا جانور نہیں لائے تھے۔ اس لیے آپ نے انھیں عمرہ کرکے احرام کھول دینے کا حکم دیا اور حج تمتع کرنے کی تلقین کی۔ حضرت عمر ؓ نے اپنے دورخلافت میں حج تمتع سے منع کردیاتھا۔ اس کی تفصیل کتاب الحج میں آچکی ہے۔
3۔ اس مقام پر اس حدیث کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کو ان کی قوم کے ملک میں گورنربنا کر روانہ کیا تھا۔ واللہ اعلم۔