تشریح:
اس حدیث میں حجۃ الوداع کا ذکر ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے اس مقام پر اسے بیان کیا ہے۔ واضح رہے کہ اس سفر میں حج میں حضرت عائشہ ؓ نے تین دفعہ رسول اللہ ﷺ سے شکایت کی جس کی تفصیل کچھ یوں ہے: ایک دفعہ مقام سرف میں جب آپ کو حیض آگیا تھا۔ جب رسول اللہ ﷺ ان کے پاس آئے تو وہ رورہی تھیں۔ آپ ﷺ نے انھیں تسلی دی کہ یہ معاملہ اللہ کی طرف سے ہے جو آدم ؑ کی بیٹیوں کے بارے میں طے شدہ ہے۔ آپ بیت اللہ کا طواف نہ کریں باقی مناسک حج ادا کرتی رہیں۔ دوسری مرتبہ اس وقت آپ سے شکوہ کیا جب آپ منیٰ کی طرف آٹھ ذوالحجہ کو جارہے تھے، جس کا اس حدیث میں ذکر ہے تو آپ نے فرمایا:"سر کےبال کھول دواور ان میں کنگھی کرلو۔" تیسری مرتبہ اس وقت شکایت کی جب آپ تیرہ(13) تاریخ کو مدینہ طیبہ روانہ ہونے کے لیے تیاری کررہے تھے تو عرض کی کہ لوگ تو حج اورعمرہ دو، دوعبادتوں کا ثواب لے کرجارہے ہیں جبکہ میں صرف حج کے ثواب کی مستحق ہوئی توآپ نے حضرت عبدالرحمان بن ابی بکر ؓ کے ہمراہ انھیں تنعیم روانہ کیا کہ وہاں سے عمرے کا احرام باندھ لیں اور عمرہ کرلیں۔ (صحیح البخاري، الحج، حدیث:1561)