تشریح:
1۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت فاطمہ ؓ جب آئیں تو ان کی چال ڈھال رسول اللہ ﷺ جیسی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اے لخت جگر! خوش آمدید۔‘‘ پھر انھیں دائیں یا بائیں جانب بٹھایا پھر آپ نے ان سے آہستہ سے کوئی بات کی تو وہ روپڑیں۔ میں نے پوچھا : تم کیوں روتی ہو؟ پھر آہستہ سے آپ نے بات کی تو آپ ہنس پڑیں۔ میں نے کہا کہ غمی اور خوشی کے ملے جلے جذبات میں نے آج ہی دیکھے ہیں میں نے اس کے متعلق پوچھا تو انھوں نے کہا: میں رسول اللہ ﷺ کا رازافشاں نہیں کرنا چاہتی۔ جب رسول اللہ ﷺ فوت ہوئے تومیں نے پھر پوچھا تو انھوں نے کہا: پہلی دفعہ رسول اللہ ﷺ نے آہستہ سے یہ بات کہی تھی۔ ’’جبرئیل ؑ سال میں ایک مرتبہ قرآن کا دور کرتے تھےجبکہ اس سال انھوں نے دو مرتبہ دور کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ میری موت قریب ہے اور تم میرے اہل خانہ میں سے سب سے پہلے مجھ سے ملاقات کرو گی۔‘‘ تو میں رونے لگی۔ پھر آپ نے فرمایا: ’’تم جنت میں خواتین کی سردار ہوگی، کیا تجھے یہ بات پسند نہیں ہے میں یہ بشارت سن کر ہنس پڑی۔‘‘ (صحیح البخاري، مناقب الأنصار، حدیث:3623۔3624)
2۔ اس روایت سے معلوم ہوا کہ حضرت فاطمہ ؓ کے ہنسنے کے دو اسباب تھے ایک پہلی روایت میں اور دوسرا اس روایت میں مذکورہ ہے۔ واللہ اعلم۔