تشریح:
1۔ ایک روایت میں ہے کہ میرے گمان کے مطابق آپ نے آخرت کو اختیار فرمایا ہے اور اب آپ ہمارے پاس نہیں رہیں گے۔ (صحیح البخاري، الرقاق، حدیث:6509) حضرت عائشہؓ نے رسول اللہ ﷺ کی تلاوت سے جو استنباط کیا اسی طرح کا استنباط ان کے والد گرامی حضرت ابو بکرؓ نے بھی کیا تھا چنانچہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ نے ایک بندے کو دنیا اور آخرت میں سے ایک اختیار کرنے کے متعلق کہا ہے تو اس نے جو اللہ کے پاس ہے اسے اختیار کیا۔‘‘ حضرت ابو بکر ؓ نے یہ سن کر روتے ہوئے کہا: ہمارے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ (صحیح البخاري، مناقب الأنصار، حدیث:3904) حضرت ابو بکر ؓ نے رسول اللہ ﷺ کے اس کلام سے یہ سمجھا کہ رسول اللہ ﷺ کو اختیار دیا گیا ہے اور آپ نے آخرت کو پسند فرمایا ہے۔ اب آپ ہمارے پاس نہیں رہیں گے۔
2۔ ان احادیث سے معلوم ہوا کہ بیٹی اور باپ کی فہم و فراست اللہ کی طرف سے ایک عطیہ تھی۔ (فتح الباري:172/8)