تشریح:
1۔ "رفیق اعلیٰ" کی تعبیر میں اختلاف ہے کچھ حضرات نے اس سے ذات باری تعالیٰ کو مراد لیا ہے کچھ حضرات کہتے ہیں کہ اس سے مقصود حضرات انبیاء ؑ ہیں۔ بعض نے کہا: اس سے ملائکہ مراد ہیں کچھ علماء کا کہنا ہے کہ اس سے وہ جگہ مراد ہے جہاں ان کی رفاقت ہو گی اور وہ جنت ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’اے اللہ ! مجھے بخش دے مجھ پر رحم فرما اور مجھے رفیق کے ساتھ ملا دے۔‘‘ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4440) بعض روایات میں ہے کہ اللہ تعالیٰ سے رفیق اعلیٰ کا سوال کرتا ہوں جو سعادت مند ہے۔ حضرت جبرئیل، حضرت مکائیل اور حضرت اسرافیل کی معیت مانگتا ہوں۔ یہ روایات اس موقف کی تردید کرتی ہیں کہ روایت کے الفاظ راوی سے بدل گئے ہیں۔ دراصل لفظ "رفیق" تھا جس کے معنی آسمان ہیں راوی نے اس کو رفیق بنا دیا۔ مذکورہ روایات اس موقف کی تردید کرتی ہیں۔ (فتح الباري:172/8)
2۔ ہمارے نزدیک اس سے مراد رفاقت ہے جو درج ذیل آیت میں بیان ہوئی ہے: ’’اور جو شخص اور رسول اللہ ﷺ کی ا طاعت کرتا ہے تو ایسے لوگ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا ہے یعنی انبیاء صدیقین شہداء اور صالحین کے ساتھ اور رفیق ہونے کے لحاظ سے یہ لوگ کتنے اچھے ہیں۔‘‘ (النساء:69/4