تشریح:
1۔ حضرت عدی بن حاتم ؓ آیت کریمہ کا مطلب یہ سمجھے کہ (الْخَيْطُ الأَبْيَضُ) اور(الْخَيْطِ الأَسْوَدِ ) سے مراد درحقیقت سیاہ اور سفید ڈورے ہیں، حالانکہ آیت مذکورہ میں کالی دھاری سے رات کی تاریکی اور سفید دھاری سے صبح کی روشنی مراد ہے۔ سفید دھاری جب کھڑی نظر آئے تو یہ صبح کاذب اور جب عرض (چوڑائی) میں پھیل جائے توصبح صادق ہے۔
2۔ عرب جب کسی کے متعلق (عَرِيضُ القَفَا) کہتے ہیں تو اس سے مراد اس کی غبارت اور غفلت ہوتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا مقصد یہ تھا کہ اگررات اور دن تیرے تکیے کے نیچے آجائیں پھر غفلت کی نیند سوتا ہوگا جو کم عقلی کی علامت ہے۔ اس سے حضرت عدی بن حاتم ؓ کی مذمت مقصود نہیں کیونکہ انھوں نے اہل زبان ہونے کی حیثیت سے فوراً ذہن میں آنے والا مفہوم اخذ کیا۔
3۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اپنی زبان دانی کے بل بوتے پر قرآن کو سمجھنا حماقت کی علامت ہے، اس کے لیے صاحب قرآن کی وضاحت نہایت ضروری ہے۔ واللہ اعلم۔