تشریح:
1۔ ’’کچھ لوگوں‘‘ سے مراد حضرت عدی بن حاتم ؓ نہیں ہیں کیونکہ ان کا قصہ ان کے بعد کا ہے نیز وہ سفید اور سیاہ دھاگا اپنے تکیے کے نیچے رکھتے تھے جبکہ حدیث میں مذکور کچھ لوگ ان دھاگوں کو اپنے پاؤں سے باندھتے تھے، صحیح مسلم میں ہے: وہ آدمی ان دھاگوں کو اپنے تکیے کے نیچے رکھتے تھے۔ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث:2533(1090)) اس کا مطلب یہ ہے کہ کچھ لوگ پاؤں سے باندھ لیتے اور کچھ تکیے کے نیچے رکھ لیتے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سحری تک وہ ان دھاگوں کو اپنے تکیوں کے نیچے رکھتے ہوں پھر انھیں پاؤں سے باندھ لیتے ہوں تاکہ آسانی سے ان کا مشاہدہ کیا جاسکے۔ (فتح الباي: 172/4)
2۔ واضح رہے کہ (الْخَيْطُ الأَبْيَضُ) اور(الْخَيْطِ الأَسْوَدِ) میں دواحتمال حسب ذیل ہیں:*۔ حقیقت میں روئی کا سفید اور سیاہ دھاگا ہو جیسا کہ ظاہر الفاظ سے فوراً ذہن میں آتا ہے۔ *۔ مجاز کے طور پر صبح کی سفیدی اور رات کی تاریکی کا احتمال بھی ہوسکتا ہے، تاہم (مِنَ الفَجرِ) کے الفاظ سے تعین کردی کہ (الْخَيْطُ الأَبْيَضُ) سے مراد سپیدہ صبح اور (الْخَيْطِ الأَسْوَدِ ) سے مراد تاریکی شب ہے۔