تشریح:
1۔ عکاظ، مجنہ اورذوالمجاز عرب کی مشہور تجارتی منڈیاں تھیں جن میں لوگ تجارت کی غرض سے جمع ہوتے تھےعکاظ ان سب سے بڑا بازار تھا جو نخلہ اور طائف کے درمیان قرن منازل کے پاس تھا۔ ذوالقعدہ کا چاند نظر آتے ہیں شروع ہوجاتا اوربیس دن تک قائم رہتا۔ مجنہ نامی بازار مرالظہران کے پاس لگتا اور ذوالقعدہ کے باقی دس دن تک لگایا جاتا اور ذوالحجہ کا چاند نظر آتے ہی اسے ختم کردیا جاتا۔ ذوالمجاز کی منڈی میدان عرفات سے ایک فرسخ کے فاصلے پر لگتی اورپہلی ذوالحجہ سے شروع ہوکرآٹھ ذوالحجہ تک قائم رہتی۔ اس کے بعد لوگ مناسک حج میں مصروف ہوجاتے۔ (فتح الباري:750/3)
2۔ حدیث میں ہے کہ جب قریش نے رسول اللہ ﷺ کو تبلیغ سے منع کردیا تو آپ موسم حج میں مجنہ اور عکاظ کے بازاروں میں جاتے اور لوگوں کو دعوت ِاسلام دیتے، مکی زندگی کے دس سال اسی طرح مشکلات میں گزارے۔ (مسند أحمد:322/3) واضح رہے کہ یہ تینوں بازار دورِاسلام میں بھی قائم تھے یہاں تک کہ خوارج کے وقت 129 ہجری میں سوق عکاظ ختم ہوگیا، اس کے بعد باقی بازار بھی رفتہ رفتہ ختم ہوگئے۔
3۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین دوران حج میں دو وجہ سے تجارت کو بُرا خیال کرتے تھے: الف۔ چونکہ حج ایک مقدس عبادت کا نام ہے، اس میں تجارت کی ملاوٹ کو وہ اخلاص عمل کے منافی خیال کرتے تھے، اس لیے انھوں نے حج کی عبادت میں تجارت کی ملاوٹ کو مکروہ خیال کیا۔ ب۔ چونکہ یہ بازار دورجاہلیت کی یادگار تھے، اس لیے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے جاہلیت کی رسم خیال کرکے اسلام میں اسے گناہ قراردیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں اس خیال کی تردید فرمائی کہ ضمنی طور پر دوران حج میں تجارت کرنا کوئی گناہ نہیں۔ اس کےباوجود جس شخص کی نیت اور عمل خالص اللہ کے لیے ہو وہ اس شخص سے افضل ہے جس کی نیت اور عمل میں تجارت وغیرہ کی ملاوٹ ہوگی۔
4۔ آیت کریمہ کے آخر میں"فِي مَوَاسِمِ الحَج" کے الفاظ آیت کاحصہ نہیں۔ بلکہ وہ حضرت ابن عباسؓ کے اپنے تشریحی الفاظ ہیں جو انھوں نے آیت کے مفہوم ومدعیٰ کو واضح کرنے کے لیے استعمال کیے ہیں۔ اس قسم کے مدرج الفاظ، تشریحی یا تفسیری الفاظ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے نزدیک قرآن مجید کی بالمعنی تلاوت جائز تھی۔ (الإتقان:77/1)