تشریح:
1۔ ظاہری طور پر یوں محسوس ہوتا ہے کہ حدیث حضرت ابن عمر ؓ کی حدیث کے مطابق ہے لیکن حقیقت کے اعتبار سے ایسا نہیں ہے کیونکہ ایک روایت میں وضاحت ہے کہ جب آدمی پچھلی جانب سے اس کی فرج میں مجامعت کرے تو یہودی کہتے تھے کہ اس سے بچہ بھینگا پیدا ہوگا ایک روایت میں ہے کہ اسے حمل ہو جائے۔ (صحیح مسلم، النکاح، حدیث:3536۔(1435)) حمل ہونے کے الفاظ اس بات کا قرینہ ہیں کہ آدمی بیوی سے فرج میں مباشرت کرے۔ کیونکہ دبر میں مباشرت کرنے سے حمل نہیں ہوتا۔ حافظ ابن حجر ؒ نے علامہ اسماعیلی ؒ کے حوالے سے یہ الفاظ بیان کیے ہیں: عورت کو گھٹنوں کے بل بیٹھا کر اس کی پچھلی جانب سے اس کی فرج میں مباشرت کی جائے۔ (فتح الباري:241/8)
2۔ مختصر یہ ہے کہ مذکورہ روایات حضرت ابن عباس ؓ کی بیان کردہ آیت تفسیر کی تائید کرتی ہیں جس میں انھوں نے حضرت ابن عمرؓ کی بیان کردہ تفسیر کی تردید کی ہے۔
3۔ واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کے قول کو باطل اور ایک بے بنیاد وہم قرار دیا ہے اور میاں بیوی کو ایک دوسرے سے ہر طرح لطف اندوز ہونے کی اجازت ہے بشرطیکہ وطی فی الدبر سے گریز کیا جائے کیونکہ یہ قوم لوط کا فعل ہے اور اس پر اللہ تعالیٰ نے ایسا عذاب نازل کیا تھا کہ ان کی بستیوں کو تہ و بالا کر ڈالا، مزید یہ بھی شرط ہے کہ ایام حیض میں اس قسم کی لطف اندوزی بھی حرام ہے۔ واللہ اعلم۔