تشریح:
1۔ یہاں پر ایک اشکال ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ جلیل القدر پیغمبر ہیں۔ انھوں نے احیائے موتی (مردوں کے زندہ ہونے کے بارے) میں اظہارشک کیوں کیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ انھوں نے قطعاً شک کا اظہار نہیں کیا بلکہ وہ تو احیائے موتی کی کیفیت کا مشاہدہ کرنا چاہتے تھے وہ بھی اس لیے کہ جب انھوں نے نمرود سے کہا: میرا رب زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے تو خیال آیا کہ علم الیقین سے عین الیقین تک ارتقاء فرمائیں اور اس کا مشاہدہ کریں۔
2۔ علامہ کرمانی ؒ لکھتے ہیں اس حدیث سے حضرت ابراہیم ؑ کا شک کرنا ثابت نہیں ہوتا بلکہ اس کی نفی ہوتی ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ جب شک کے حق دار ہونے کے باوجود ہمیں کوئی شک نہیں تو ابراہیم ؑ بالاولیٰ شک وشبہ سے بالا تر ہیں۔ (الکرماني:43/16) دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے صرف کیفیت احیا میں قلبی اطمینان کے لیے درخواست کی تھی شک کی بنا پر نہیں تھی۔ اگر شک کی وجہ سے ایسا ہوتا تو ابراہیم ؑ سے زیادہ شک کا حق ہمیں ہوتا۔ دونوں صورتوں میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد تواضع اور انکسار پر مبنی ہے یہ بھی ہو سکتا ہے۔’’ہم‘‘ سے مراد آپ کی ذات گرامی نہیں بلکہ آپ کی امت ہو۔ واللہ اعلم۔