تشریح:
1۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جب تم ایسے لوگوں کو دیکھوتو انھیں فوراً پہچان لو اور ان سے دوررہو۔" (جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث:2993،2994)
2۔ سب سے پہلے یہودیوں نے متشابہ آیات کا اتباع کیا اور حروف مقطعات کی تاویل کرنے کی کوشش کی۔ پھر حساب جمل کےذریعے سے اس امت کی مدت بقا کی تعین کے لیے بے فائدہ کوشش کی۔ ان کے بعد خوارج نے یہ کام کیا حتی کہ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے آیت میں خوارج ہی کومراد لیا ہے۔ حضرت عمرؓ نے مروی ہے کہ جب انھیں "ضبیع" نامی آدمی کے متعلق معلوم ہوا کہ وہ متشابہ آیات کی ٹوہ میں لگارہتا ہے تو اسے مار مار کراس کا سرلہولہان کردیا۔ (فتح الباري:266/8)
3۔ حافظ ابن حجر ؒ متشابہ آیات کی حکمت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: جس طرح اعضائے بدن کو مختلف عبادات کے ذریعے سے مبتلائے آزمائش کیا جاتا ہے اسی طرح متشابہ آیات کے ذریعے سے عقل کو آزمایا جاتاہے۔ اس کی مثال ایسے ہیے جیسے کوئی دانا آدمی کتاب تصنیف کرے تو بعض مقامات پر اجمال سے کام لے تاکہ ان مقامات پر شاگرد کو استاد کے سامنے جھکنا پڑے۔ (فتح الباري:266/8)
4۔ ہمارے رجحان کے مطابق محکم آیات وہ ہیں جن کا مطلب واضح ہو اور ان میں کسی قسم کا اشتباہ نہ ہو اور نہ کوئی دوسرا مطلب ہی لیا جاسکتا ہو۔ ان سے مراد حلال حرام سے متعلق احکام ہیں۔ اور یہی چیزیں انسانی ہدایت کے لیے کافی ہیں۔ چونکہ قرآن کریم کا اصل موضوع انسان کی ہدایت ہےاور محکمات سے انسان کو پوری رہنمائی جاتی ہے، لہذا محکمات ہی کو ام الکتاب کا نام دیا گیا ہے۔ اور یہی وہ آیات ہیں جن کے متعلق قرآن کا دعویٰ ہے۔ کہ ہم نے قرآن کو آسان بنادیا ہے۔ متشابہات ایسی آیات ہیں جن کا مفہوم انسانی ذہن کی دسترس اور پہنچ سے بالاتر ہوتا ہے۔ انسان کی عقل چونکہ محدود ہے جبکہ کائنات اور اس کے حقائق لامحدود ہیں، لہذا عقل سلیم رکھنے والے لوگ ان کے درپے نہیں ہوتے بلکہ گمراہ لوگوں کا ہدف اور محل استدلال متشابہات ہوا کرتی ہیں جن سے دور رہنے کی حدیث میں تلقین کی گئی ہے۔
5۔ چونکہ دونوں قسم کی آیات کا منبع ایک ہی ہے، اس لیے اہل علم دونوں کو منزل من اللہ کہتے ہیں اور متشابہات کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ بھی اللہ تعالیٰ کے ارشادات ہیں لیکن اس کی حقیقت تک پہنچنے کی کوشش نہیں کرتے کیونکہ ایسی آیات کا انسانی ہدایت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، دوسرے ان کے پیچھے پڑنے میں گمراہی کا احتمال بہت زیادہ ہوتا ہے۔ ہمارے نزدیک یہی موقف راجح ہے، البتہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ متشابہات کی حقیقت کو اللہ ہی جانتاہے لیکن علم میں رسوخ رکھنے والے لوگ بھی جانتے ہیں جیسا کہ امام بخاری ؒ نے امام مجاہدؒ کا قول نقل کیا ہے کہ متشابہات کے معنی اللہ بھی جانتا ہے اورراسخین فی العلم بھی جانتے ہیں لیکن یہ موقف مرجوح ہے چنانچہ حافظ ابن حجرؒ نے مصنف عبدالرزاق کے حوالے سے حضرت ابن عباسؓ کی روایت نقل کی ہے کہ وہ اس طرح پڑھا کرتے تھے: ﴿وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّهُ ۗ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ﴾ اس کے معنی یہ ہیں کہ متشابہات کے معانی کا اللہ کے سوا کسی کو علم نہیں اور راسخین فی العلم کہتے ہیں کہ ہم ان پر ایمان لائے۔ اس روایت سے اگرچہ قراءت تو ثابت نہیں ہوتی لیکن کم از کم صحیح سند کے ساتھ، ترجمان القرآن سے منقول ہونا تو مسلم ہے، اس لیے ترجمان القرآن کے قول کو باقی تمام اقوال پر ترجیح دینی چاہیے۔ (فتح الباري:264/8) علاوہ ازیں بے شمار متشابہات ایسی ہیں جن کی حقیقت اللہ کے سوا کسی راسخ فی العلم کو بھی معلوم نہیں ہوسکتی، جن میں فہرست توحروف مقطعات ہیں، البتہ ذو معنی الفاظ والی آیات کے متعلق کہا جاسکتا ہے کہ علم میں رسوخ رکھنے والے شاید ان کی حقیقت کو پاسکیں۔
6۔ بہرحال علم میں پختہ کار لوگوں کا شیوہ صرف یہ نہیں ہوتا کہ وہ متشابہات کی تاویل کے پیچھے نہیں پڑتے بلکہ اللہ سے یہ بھی دعا کرتے ہیں کہ جو فتنہ انگیز لوگ متشابہات کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں ان کی فکر ہمارے دل ودماغ پر کہیں اثر انداز نہ ہوجائے۔ اللہ اپنی رحمت سے ہمیں ایسے فتنہ پرورلوگوں کے افکار عقائد سے محفوظ رکھے اور صحیح عقل وفکر عطا فرمائے۔ واللہ اعلم۔