تشریح:
1۔ ایک روایت میں اس کی مزید تفصیل ہے کہ جب کوئی آدمی مرجاتا تو اس کے رشتے دار بیوہ پر کپڑا ڈال دیتے اور اس کے عزیز واقارب کو اس کے پاس نہ آنے دیتے۔ اگر وہ خوبصورت ہوتی تو اس سے خود نکاح کر لیتے اور اگر بدصورت ہوتی تو اسے روکے رکھتے حتی کہ مر جاتی تو اس کے مال و متاع کے وارث بن جاتے۔ (تفسیر الطبري، سورہ النساء:آیت:19)
2۔ یہ آیت کریمہ حضرت کبشہ بنت معن کے متعلق نازل ہوئی اور وہ ابو قیس بن اسلت کے نکاح میں تھی۔ جب اس کا خاوند ابو قیس فوت ہوا تو اس کے بیٹے نے کبشہ سے نکاح کرنا چاہا چنانچہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی: اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! نہ تو میں نے اپنے خاوند سے کچھ وراثت پائی ہے اور نہ مجھے آزاد ہی کیا جا تا ہے کہ میں آگے نکاح کر لوں۔ اس کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔ (فتح الباري:311/8)
3۔ بہر حال عورت ترکے کا مال تصور ہوتی تھی اور اس کا سوتیلا بیٹا یا میت کا بھائی ہوتا تھا۔ اس پر خاوند کے وارثوں کا اختیار ہوتا عورتوں کے وارثوں کا کچھ اختیار نہ ہوتا چنانچہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد عورتوں کو پوری عزت ملی اور انھیں پورے آزادانہ حقوق دیے گئے۔ واللہ علم۔