تشریح:
1۔ایک دوسری روایت میں اس کی مزید وضاحت ہے۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں: رسول اللہ ﷺ تندرستی کی حالت میں فرمایا کرتے تھے: " کسی نبی کو اس وقت تک موت نہیں آتی جب تک اسے جنت میں اس کا ٹھکانہ نہ دکھایا جائے، پھر اسے دنیا میں رہنے یا آخرت کی طرف سدھارنے کا اختیار دیا جاتا ہے۔" آپ جب بیمار ہوئے اورآخر وقت آیا تو آپ کا سرمبارک میری ران پر رکھا ہوا تھا آپ بے ہوش ہوگئے۔ جب ہوش آیا تو چھت کی طرف دیکھنے لگے اور فرمایا: "اے اللہ!میں رفیق اعلیٰ کی رفاقت چاہتا ہوں۔" میں نے (دل میں) کہا: اب رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس نہیں رہیں گے۔ مجھے یقین ہوگیا کہ یہ وہی حدیث ہے جو آپ تندرستی کی حالت میں بیان کیاکرتے تھے۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4437) 2۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں: ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی اللہ کے رسولﷺ !مجھے آپ سے بہت محبت ہے اور آپ مجھے میرے اہل وعیال سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔ میں گھر میں ہوتا ہوں تو آپ ہی کو یاد کرتا رہتا ہوں۔ جب تک آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر آپ کو دیکھ نہ لوں مجھے صبر نہیں آتا۔ جب مجھے آپ کی موت یاد آتی ہے تو پریشان ہوجاتا ہوں کہ آپ تو فردوس اعلیٰ میں انبیاء کرام ؑ کے ہمراہ ہوں گے اور میں جنت میں آپ کو نہیں دیکھ سکوں گا، مجھے اس کیفیت سے بہت ڈر لگتاہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے کوئی جواب نہ دیا حتی کہ حضرت جبریل ؑ مذکورہ آیت لے کر نازل ہوئے۔ (المعجم الأوسط للطبراني:296/1۔ رقم:480)