تشریح:
1۔ مسجدیں چونکہ عبادت اور ذکرالٰہی کے لیے بنائی جاتی ہیں، اس لیے بظاہر یہ شبہ ہوسکتا ہے کہ شراب، سود اورخنزیر جیسی گندی چیزوں کا ذکر مسجد کے تقدس کے منافی ہے۔ اس اشکال کا ازالہ کرنا چاہتے ہیں۔ امام بخاری ؒ کہ ان چیزوں کا ذکر اگر شرعی احکام کے بیان کرنے کے لیے آئے توجائز ہی نہیں، بلکہ مستحسن ہے۔ یعنی شراب جیسی حرام اورخبیث چیز کی حرمت کا مسئلہ مسجد میں بیان کیا جاسکتاہے۔ (فتح الباري:716/1) شراب اور سود کا حکم ایک ساتھ اس لےبیان کیا کہ سود کھانے والے اور شراب پینے والے یکساں طور پر شیطان کے زیر اثر ہوتے ہیں۔ لیکن علامہ عینی ؒ نے کہا ہے کہ امام بخاری ؒ کا یہ مقصد نہیں، کیونکہ مسجد میں ان چیزوں کے تذکرے کا جواز ثابت کرنے میں کوئی فائدہ نہیں۔ بلکہ امام بخاری ؒ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ تجارت شراب کی حرمت کااعلان مسجد میں کیاگیا اور یہی بات حدیث میں صراحت کے ساتھ موجود ہے، یعنی رسول اللہ ﷺ نے تجارت شراب کی شناعت کے پیش نظر اس کی حرمت کے اعلان کے لیے مسجد کے علاوہ کسی اورجگہ کو مناسب ہی خیال نہیں کیا، اس کے لیے مسجد نبوی کے منبر کا انتخاب کیا۔ اس سے معلوم ہواکہ اس کی حرمت انتہائی قبیح اور اس کی تجارت نہایت قابل نفرت ہے۔ (عمدة القاري:507/3) 2۔ آیات ربا کانزول رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ کے بالکل آخری زمانے میں ہوا جبکہ حرمتِ شراب کا حکم اس سے کافی عرصہ پہلے آچکا تھا، پھر رسول اللہ ﷺ کے مسجد نبوی میں آیاتِ ربا پڑھ کر سنانے کے بعد تجارت شراب کی حرمت کا اعلان کرنے کی کیا وجہ ہے؟ علمائےحدیث اس کے کئی ایک جواب دیتے ہیں: ©۔ا گرچہ شراب کی حرمت پہلے آچکی تھی تاہم آپ نے دوبارہ حرمت سود کے ساتھ بطور تاکید بیان فرمایا۔ ©۔ شراب کی حرمت کاحکم تو پہلے آچکا تھا، لیکن اس موقع پر اس کی تجارت کے متعلق بھی حکم امتناعی جاری کردیا۔ (فتح الباري:716/1) لیکن ہمارے نزدیک یہ توجیہ محل نظر ہے، کیونکہ جب کسی چیز کی حرمت کا حکم آتا ہے تو اس سے فائدہ اٹھانا بھی منع کردیاجاتا ہے۔ ہمارے نزدیک پسندیدہ توجیہ یہ ہےکہ سود اور شراب میں کافی مماثلت ہے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے حرمت ربا کے ساتھ تجارتِ شراب کی حرمت کا بھی بیان کردیا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ راوی نے اس وقت سنا ہو اوراپنے خیال کے مطابق اس نے بیان کردیا۔ واللہ أعلم۔