تشریح:
1۔ اس کا مطلب یہ ہے لوگوں کا فتنہ اور ان کا آپس میں دست و گریبان ہونا اللہ کے عذاب کے مقابلے میں آسان ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ یہ امت فتنوں میں مبتلا رہی ہے۔
2۔ دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اوپر سے عذاب رجم کی صورت میں اور نیچے سے عذاب خسف کی شکل میں بھی ہو سکتا ہے جن سے رسول اللہ ﷺ نے پناہ مانگی ہے۔ لیکن ایک دوسری حدیث میں ہے کہ قرب قیامت کے وقت اس امت میں خسف ہو گا۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اس میں تطبیق یہ بیان کی ہےکہ خسف میں چند افراد مبتلا ہوں گے، پوری امت اس عذاب کی لپیٹ میں نہیں آئے گی تو جن روایات میں خسف کی نفی ہے یہ نفی پوری امت کے اعتبار سے ہے اور جن میں اس کے واقع ہونے کا ذکر ہے وہ چند افراد کے لحاظ سے ہے۔ اس لیے ان احادیث میں کوئی تعارض اور اختلاف نہیں ہے۔ (فتح الباري:371/8)