تشریح:
1۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مذکورہ دعا ابوجہل نے کی تھی جبکہ دوسری سے پتہ چلتا ہے کہ اس کا قائل نضر بن حارث تھا۔ ان دونوں اقوال میں کوئی تضاد نہیں ہے کیونکہ دونوں نے ایسا کہا ہوگا۔ نضر بن حارث بھی ابوجہل کی طرح بہت گستاخ تھا۔
2۔ ابوجہل کی دعا قبول ہوئی، وہ بدر کے دن ذلت کی موت مرا۔ اسی طرح نضر بن حارث کو بھی رسوا کن عذاب سے دو چارہونا پڑا، وہ بھی بدر کے دن مقداد بن اسود کے ہاتھوں گرفتار ہوا، پھر اسے رسول اللہ ﷺ کے حکم سے باندھ کر قتل کیا گیا۔
3۔ بہرحال یہ لوگ انتہائی بے وقوف تھے کہ انھوں نے دین اسلام کے برحق ہونے کی صورت میں بھی اللہ تعالیٰ سے عذاب کا مطالبہ کیا، اسے قبول کرنے کی توفیق طلب نہ کی۔ اس سے بڑھ کر دنیا میں شاید کوئی سرکشی اور انکار نہ ہو۔ ابوجہل اور نضر بن حارث کی دعا کا جواب ہم آئندہ حدیث کے فوائد میں ذکر کریں گے۔