تشریح:
1۔ ابو جہل کی دعا کا جواب اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں دیا: "تم اس سے پہلے حق و باطل میں فیصلہ کرنے کی دعائیں کرتے تھے سو اب اس جنگ (بدر)کی صورت میں میرا فیصلہ تمھیں معلوم ہو چکا ہے۔اب تم لوگ باز آجاؤ تمھارا بھلا اسی میں ہے اور اگر اب بھی باز نہ آئے تو پھر میں تمھیں دوبارہ ایسی ہی سزا دوں گا ۔اور تمھاری جمعیت تمھارے کچھ کام نہ آسکے گی خواہ وہ کتنی ہی زیادہ ہو۔"(الأنفال:109/8) اور دوسرا جواب ان آیات میں دیا گیا ہے کہ فوری طور پر پتھروں کا عذاب نازل نہ کرنے کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ تم میں ابھی اللہ کا رسول موجود ہے اور اس کی موجودگی میں تم پر عذاب نہیں آسکتا اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اللہ کا رسول اور اہل ایمان کی جماعت ہر وقت اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتے رہتے ہیں اور میرا قانون یہ ہے کہ جب تک کسی قوم میں استغفار کرنے والے لوگ موجود ہیں میں اس پر عذاب نازل نہیں کرتا۔
2۔ یہ بات بھی یاد رہے کہ اگر چہ ابو جہل اور اس کی قوم پر آسمان سے پتھر نہیں برسے لیکن ایک مٹھی بھر سنگریزے جو اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ میں دیے تھے وہ آسمانی سنگریزوں کا چھوٹا سا نمونہ تھا، جیسا کہ ارشا دباری تعالیٰ ہے: " کافروں کو تم نے قتل نہیں کیا تھا بلکہ اللہ تعالیٰ نے انھیں مارا تھا اور جب آپ نے(مٹھی بھر خاک) پھینکی تھی تو آپ نے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے (وہ) پھینکی تھی۔" (الأنفال:17/8)